خلاصہ: قرآن کریم میں لفظ "اجل" کا کئی آیات میں تذکرہ ہوا ہے، اس لفظ کے دو معنی ذکر ہوئے ہیں، جن کی مختصر وضاحت اس مضمون میں بیان کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"اَجَل" کے دو معنی ہیں:
۱۔ مدت اور وقت: فلاں شخص کی اجل پچاس سال ہے، یعنی اس کی عمر کی مدت پچاس سال ہے، جیسا کہ سورہ یونس کی آیت ۴۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ"، "ہر امت (قوم) کیلئے (مہلت کی) ایک مدت ہوتی ہے"۔
۲۔ مدت کا پورا ہوجانا: اجلِ دَیْن یعنی قرضہ کی مقررہ مدت کا پورا ہوجانا جس وقت قرضہ واپس دے دینا چاہیے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے اگلے حصہ میں ارشاد پروردگار ہے: "فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ"، " پس جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو نہ وہ ایک ساعت کے لیے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ایک ساعت آگے بڑھ سکتے ہیں"۔
سورہ سبا کی آیت ۳۰ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: "قُل لَّكُم مِّيعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ"، "آپ کہیے! تمہارے لئے وعدہ کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو"۔
یہاں پر "میعاد" وعدے کی مدت کے پورا ہونے کے معنی میں ہے۔ جب وہ دن آگیا تو عمر گزر گئی ہے اور اجل پوری ہوگئی ہے۔ [اقتباس از: معادشناسی، محمد حسین حسینی طہرانی، ج۱، ص۵۸]
لفظ "اَجَل" قرآن کریم میں مختلف چیزوں کے لئے استعمال ہوا ہے: انسان، اُمتیں، مادی مخلوقات، شکمِ مادر میں بچہ اور کئی دیگر چیزوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اقتباس از: معادشناسی، آیت اللہ محمد حسین حسینی طہرانی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment