موت سے بھاگنا موت کو پا لینا

Wed, 01/16/2019 - 20:34

خلاصہ: انسان جتنی کوشش کرکے موت سے بھاگنا چاہے نہیں بھاگ سکتا، بلکہ ہر حال میں موت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔

موت سے بھاگنا موت کو پا لینا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آدمی سڑک سے تیزی سے گزرتا ہے کہ اس کا گاڑی سے ٹکراؤ نہ ہوجائے، جبکہ یہی تیز رفتاری ہی ٹکراؤ اور موت کا باعث بن جاتی ہے، یہ ظاہری طور پر موت سے فرار ہے اور درحقیقت موت کا استقبال ہے۔ مریض طبیب کے پاس جاتا ہے کہ اپنی بیماری کا علاج کرائے، مگر طبیب کی چھوٹی سی غلطی سے مرجاتا ہے۔
اس موضوع کے لئے مثالیں بہت زیادہ ہیں، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ سب گھڑیاں اور لمحے جو انسان پر گزرتے ہیں، ان گھڑیوں اور لمحوں میں انسان کوشش کرتا ہے کہ موت کی گرفت سے نجات پائے اور اپنی موجودیّت کو محفوظ رکھے اور وہ کام کرے جو اس کی زندگی کے جاری رہنے کے لئے مفید ہے اور جو کچھ اس کی حیات کے زوال کا باعث ہے اسے اپنے سے دور کرے، حتی نیند میں بھی اپنے اس تحفظ کا خیال رکھتا ہے۔
یہ سب انسانوں کا فطری تقاضا ہے، لیکن حقیقت میں ہر لمحہ موت کے قریب ہوتا چلا جارہا ہے اور تمام سرگرمیاں اور مصروفیات جو گزرتے ہوئے وقت کے سانچے میں سرانجام پارہی ہیں اور اس وقت کا گزرنا انسان کے ارادے اور اختیار سے باہر ہے تو انسان چاہے یا نہ چاہے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو آگے لے جارہا ہے اور لمحہ لمحہ سے اپنی موت کا استقبال کرتا ہوا مسلسل اس کے قریب ہورہا ہے۔
لہذا حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۴۷ میں ارشاد فرماتے ہیں: "اے لوگو! ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از: معادشناسی، آیت اللہ محمد حسین حسینی طہرانی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ نہج البلاغہ، مولانا مفتی جعفر حسین علیہ الرحمہ]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41