قرآن و حدیث
خلاصہ: قرآن مجید کی تفسیر اپنے ذاتی خیالات کے مطابق کرنا ایک نادرست عمل ہے۔
خلاصہ: قرآن کریم میں کئی آیات، تحدی کے بارے میں ہیں۔ اس مضمون میں تحدی کی مختصر وضاحت اور پھر تحدی کی آیات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
خلاصہ: بعض روایات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور ایک دوسرے کے متضاد ہیں، احادیث میں اس کا حل بتایا گیا ہے۔
خلاصہ: قران کریم کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے جب اہل بیت (علیہم السلام) سے روایات نقل کی جاتی ہیں تو اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جری و تطبیق اور تفسیر میں فرق ہے، بہت ساری روایات جری و تطبیق کے لحاظ سے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ اس آیت کا واضح ترین مصداق ہے۔
خلاصہ: قرآن کریم چونکہ لاریب کلام ہے اس لئے حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث برحق ہیں، مگر بعض دشمنوں نے احادیث اپنی طرف سے گھڑ کر اہل بیت (علیہم السلام) سے نسبت دیدی تو صحیح اور من گھڑت احادیث کی ملاوٹ ہوگئی، لہذا احادیث کے صحیح ہونے کا معیار قرآن کریم ہے۔
خلاصہ: قرآن کریم کی آیات کی تفسیر، اہل بیت (علیہم السلام) سے ہی دریافت کرنا چاہیے، کیونکہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) ثقلین اور دو قیمتی چیزیں ہیں اور اہل بیت (علیہم السلام) ہی قرآن کریم کی حقیقی اور صحیح تفسیر بیان فرما سکتے ہیں، ان عظیم ہستیوں میں سے ایک حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) ہیں جن سے کئی آیات کی تفسیر نقل ہوئی ہے۔
خلاصہ: دین اسلام کے مخالفین نے قرآن کریم کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں تاکہ قرآن کی تعلیمات اور اہل بیت (علیہم السلام) سے لوگوں کو دور رکھیں مثلاً یہ شبہ کہ نہ تفسیر قرآن کی ضرورت ہے اور نہ مفسرِ قرآن کی، جبکہ یہ نظریہ قرآن کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔
خلاصہ: کسی شخص کو کسی مقام کے لئے منتخب کرنے کے لئے اس مقام کی پہچان ضروری ہے اور اگر پہچان نہ ہو تو منتخب کرنا فضول ہے، کیونکہ جب مقام کی پہچان نہیں تو اس مقام کےلئے لائق شخص کی بھی پہچان نہیں، اسی طرح امامت کے بلند مقام سے لوگ ناواقف ہیں تو ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو امام بنائیں، لہذا صرف اللہ تعالی کسی کو امام منصوب کرسکتا ہے۔
خلاصہ: امام وہ عظیم ہستی ہے جس کے ذریعہ نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں، لہذا جو امام برحق کو تسلیم نہیں کرتا اس کے یہ اعمال بھی مکمل نہیں ہیں۔
خلاصہ: حضرت ابراہیمؑ کو برگزیدہ اور پاک اولاد میں اللہ تعالی نے امامت کو قرار دیا اور اس ذریعہ سے حضرت ابراہیمؑ کی عزت افزائی کی اور نیز اس پاک اولاد جسے امامت عطا فرمائی، ان میں کئی صفات قرار دیں۔