خلاصہ: قرآن کریم چونکہ لاریب کلام ہے اس لئے حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث برحق ہیں، مگر بعض دشمنوں نے احادیث اپنی طرف سے گھڑ کر اہل بیت (علیہم السلام) سے نسبت دیدی تو صحیح اور من گھڑت احادیث کی ملاوٹ ہوگئی، لہذا احادیث کے صحیح ہونے کا معیار قرآن کریم ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم اللہ تعالی کا لاریب کلام ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جو ہر دعویدار کے سچے یا جھوٹے ہونے کا معیار ہے، اسی طرح اہل بیت (علیہم السلام) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کا معیار اور ان سے نقل کی گئی روایات کے صحیح ہونے کا معیار بھی قرآن کریم ہے۔ ان حضراتؑ کی دینی اور سیاسی مرجعیت اس جیسی آیات پر قائم ہے: "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" (سورہ حشر، آیت ۷)، "اور جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"۔ واضح رہے کہ اگر معصومین (علیہم السلام) کی روایات کا معیار قرآن ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذباللہ ان حضراتؑ کا کلام قرآن سے ٹکراتا ہے، بلکہ بعض روایات کو جھوٹے افراد نے گھڑا ہے اور اس کی نسبت معصومین (علیہم السلام) سے دیدی ہے تو اس وجہ سے احادیث کا معیار قرآن کریم ہے۔لہذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "أيها الناس ما جاء كم عني يوافق كتاب الله فأنا قلته وما جاء كم يخالف كتاب الله فلم أقله" (الکافی، ج۱، ص۶۹)، "اے لوگو! جو (بات) میری طرف سے تمہارے پاس آئے جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو وہ (بات) میں نے کہی ہے اور جو (بات) تمہارے پاس آئے جو کتاب اللہ سے مخالفت ہو تو وہ (بات) میں نے نہیں کہی"۔ لہذا ہر حدیث کے مفہوم اور مطلب پر غور کرنا چاہیے کہ کیا قرآن کے موافق ہے یا مخالف۔
حوالہ
[الکافی، کلینی، دار الكتب الاسلامية مرتضى آخوندی، تیسری چاپ ۱۳۸۸ھ، تهران]
Add new comment