خلاصہ: قران کریم کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے جب اہل بیت (علیہم السلام) سے روایات نقل کی جاتی ہیں تو اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جری و تطبیق اور تفسیر میں فرق ہے، بہت ساری روایات جری و تطبیق کے لحاظ سے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ اس آیت کا واضح ترین مصداق ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم کی آیات کی وضاحت کے متعلق دو طرح کی روایات پائی جاتی ہیں: ۱۔ وہ روایات جو جری و تطبیق کرتی ہیں۔ ۲۔ وہ روایات جو تفسیر کرتی ہیں۔ جری و تطبیق کا مطلب یہ ہے کہ کسی آیت کا واضح ترین مصداق بیان کیا جائے اور تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ اور جملوں کے معنی کو بیان کیا جائے۔ بہت ساری روایات جو نورالثقلین اور برہان جیسی روائی تفاسیر میں نقل ہوئی ہیں، جری و تطبیق کے لحاظ سے ہیں اور آیت کی تفسیر نہیں کررہی ہوتیں، بلکہ آیت کے سب سے زیادہ واضح مصادیق کو بیان کرتی ہیں کمال و سعادت کے لحاظ سے یا نقص و شقاوت کے لحاظ سے، نہ کہ لفظ کی تفسیر کے طور پر ہو یعنی روایت یہ کہنا چاہتی ہو کہ فلاں لفظ فلاں معنی کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کا کوئی اور مصداق نہیں ہے۔ البتہ یقیناً بعض ایسی آیات بھی ہیں جن کے مصادیق منفرد اور محدود ہیں، جیسے آیت تطہیر، آیت مباہلہ، آیت "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" (سورہ مائدہ، آیت ۵۵)۔ جری و تطبیق کی ایک مثال یہ ہے کہ ارشاد الہی ہے: "إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ"، " تم تو بس (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے"، (سورہ رعد، آیت ۷)۔ اس آیت کی تفسیر میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ ابوبصیر نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا: "رسول الله صلى الله عليه وآله المنذر وعلي الهادي" (الکافی، ج۱، ص۱۹۲)، "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) مندر ہیں اور علیؑ ہادی ہیں"۔ اس روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کو جو ہادی کہا گیا ہے یہ جری و تطبیق کے لحاظ سے ہے یعنی ہادی کا ایک بڑا مصداق آپؑ ہیں، نہ کہ آیت کی تفسیر یہ ہے۔
حوالہ
[الکافی، کلینی، دار الكتب الاسلامية مرتضى آخوندي، تیسری چاپ ۱۳۸۸ھ، تهران]
Add new comment