اسلام
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔لیکن مغربی دنیا نے اسے ایک منفی پہلو سے لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقی اسلام سے دور ہوں اور مسلمانوں سے متنفر ہوں مقالہ ھذا میں جہاد کی حقیقی تصویر کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس امید کے ساتھ کے لوگوں تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچیں-
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کے مقصد کی تکمیل کے لئے ایک راستہ جو اختیار کیا، خطبہ کے ذریعے حقائق کو بیان کرنا تھا، ان خطبوں میں سے ایک کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ ہے جو آپ (سلام اللہ علیہا) نے حقائق کو کلامی محاسن کے ساتھ بیان کیا جس کا سننے والے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔-
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ دیا، اس کا پہلا جملہ جو حمد اور صلوات پر مشتمل ہے، اس کی اس مقالہ میں مختصر تشریح کی گئی ہے۔ جیسا کہ حمد صرف اللہ تعالی سے مختص ہے اور صلوات ناقص نہیں بھیجنی چاہیے بلکہ مکمل بھیجی جائے یعنی اللہم صل علی محمد و آل محمد۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفہ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کوفیوں کی چار بری صفات بیان کرکے ان کی مذمت کررہی ہیں جن پر ہمیں چاہیے کہ غور کریں، کہیں حالات کے بدل جانے سے یہ صفات ہمارے اندر جنم نہ لے لیں، کیونکہ اہل کوفہ کی ان صفات کی بنیاد پر مذمت ہوئی ہے تو جب یہ صفات یقینا قابل مذمت ہیں تو جس شخص میں یہ صفات آجائیں وہ شخص بھی یقیناً لائق مذمت بوگا۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ دیا اس خطبہ کے منظر اور ماحول سے کئی اہم نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہوئے ان کو اس عورت سے تشبیہ دے رہی ہیں جس عورت کے مذمت آمیز کام جیسا کام کرنے سے منع کیا ہے، اس سے قرآن کریم یہ درس دینا چاہتا ہے کہ بیعت اور عہد کو مت توڑو، اور آنحضرتؑ اس تشبیہ کے ذریعہ یہ سمجھانا چاہ رہی ہیں کہ تم اہل کوفہ عہد شکن ہو۔
خلاصہ: جناب زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اہل بیت علیھم السلام اور ان کے چاہنے والوں پر ظلم کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا جب نبی کریم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دنیا سے رخصت ہوئے، مقالہ ھذا میں اہل بیت علیھم السلام کی اس چاہنے والی کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ جسکو فقط فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیھا کے ظالمین پر لعنت کرنے کی وجہ سے سخت سزا سے روبرو ہونا پڑا اور جس کی رہائی کے لئے بنفسنفیس امام جعفر صادق علیہ السلام نے دعا کی اور نہایت عظیم انعام سے نوازا۔-
خلاصہ:مکہ کی سرزمین پر حضرت عبد مناف کے خاندان سے ایک لڑکی کہ جس کا نام آمنہ تھا حضرت عبداللہ نے اس کا رشتہ مانگا کسی کو کیا معلوم تھا کہ کل یہ لڑکی اس کائنات کے عظیم انسان کی ماں بننے والی ہے ۔