ایک با عظمت و خوش عقیدہ خاتون

Sun, 04/16/2017 - 11:16

          اس میں کوئی شک نہیں اہل بیت علیھم السلام  اور ان کے چاہنے والوں پر ظلم کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا جب نبی کریم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دنیا سے رخصت ہوئے، مقالہ ھذا میں اہل بیت علیھم السلام کی اس چاہنے والی کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ جسکو فقط  فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیھا کے ظالمین پر لعنت کرنے کی وجہ سے سخت سزا سے روبرو ہونا پڑا  اور جس کی رہائی کے لئے بنفسنفیس امام جعفر صادق علیہ السلام نے دعا کی اور نہایت عظیم انعام سے نوازا۔-

ایک با عظمت و خوش عقیدہ خاتون

 

          بشار مکاری کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کھجوریں تناول فرما رہے تھے، آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ بشار قریب آجاؤ اور کھجوریں کھاؤ۔‘‘
          میں نے عرض کی: ’’ مولا میں آرہاتھا کہ راستہ میں ایک عجیب منظر دیکھا جس کی وجہ سے میرا جی اس وقت بھی رونے کو چاہ رہا ہے، اسی لئے میں کھجوریں نہیں کھاؤں گا ، آپ تناول فرمائیں۔‘‘
          آپ نے فرمایا: ’’ بشار میرے اس حق کا واسطہ جو تمہارے ذمہ ہے، میرے قریب آؤ اور کھجوریں کھاؤ‘‘چنانچہ میں نے امام علیہ السلام کے ساتھ کھجوریں کھانا شروع کیں، امام عالی مقام نے مجھ سے پوچھا کہ :’’ تم نے کیا دیکھا ہے‘‘؟ میں نے عرض کی: ’’ مولا میں نے حکومت کے چند سپاہیوں کو دیکھا جو ایک عورت کو تازیانوں سے پیٹ رہے تھے اور عورت لوگوں کو خدا و رسول کا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکار رہی تھی مگر کسی نے اس کی مدد نہیں کی‘‘۔
          امام علیہ السلام نے پوچھا:’’ یہ بتاؤ کہ سپاہی اس عورت کو کیوں مار رہے تھے‘‘؟ میں نے کہا: ’’ مولا میں نے سنا ہے کہ وہ عورت سڑک پر جارہی تھی اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر جاگری اور اس کے منہ سے یہ الفاظ جاری ہوئے: ’’  لَعَنَ اللَّهُ ظَالِمِيكِ يَا فَاطِمَة ‘‘ فاطمہ زہرا ! اللہ ان پر لعنت کرے جنہوں نے آپ پر ظلم کئے تھے‘‘۔ اسی لئے اس عورت کو سپاہیوں نے پکڑ کر تازیانے مارنے شروع کئے اور اسے گرفتار کر کے لے گئے۔
          یہ سن کر امام جعفر صادق علیہ السلام اتنا روئے کہ آپ کی ریش مبارک اور رومال آنسوؤ سے تر ہوگئے اور آپ کے آنسو بہتے ہوئے سینہ مبارک پر جاری ہوگئے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:’’ بشار آؤ مسجد سہلہ چل کر اس خاتون کی رہائی کے لئے دعا مانگیں۔‘‘ اور آپ نے اس خاتون کی خیریت معلوم کرنے کے لئے اپنے ایک صحابی کو دار الامارہ روانہ کیا ۔ہم مسجد سہلہ آئے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر امام صادق علیہ السلام نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند کئے پھر سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھا یا اور فرمایا : ’’ آؤ چلیں وہ مؤمنہ خاتون آزاد ہوچکی ہے‘‘۔
          ہم مسجد سہلہ سے واپس آرہے تھے کہ راستہ میں امام عالی مقام کا وہ صحابی ہمیں ملا جسے آپ نے اس خاتون کی خبر معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ امام علیہ السلام نے مؤمنہ خاتون سے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے کس طرح سے رہائی ملی؟ صحابی نے عرض کی:’’ مولا میں وہاں موجود تھا جب اس خاتون کو دربار میں پیش کیا گیا تو اس بی بی سے حاکم نے پوچھا تم نے کیا کہا تھا؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ میں راہ چلتے گر پڑی تھی اور میں نے یہ الفاظ کہے تھے: ’’ لَعَنَ اللَّهُ ظَالِمِيكِ يَا فَاطِمَة‘‘ اسکے علاوہ میرا کوئی جرم نہیں ہے، تمہارے سپاہی مجھے تازیانے مارتے ہوئے یہاں لے آئے ہیں‘‘۔
          حاکم نے کہا: ’’ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں، سپاہیوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے اس کے لئے معافی چاہتا ہوں‘‘۔پھر حاکم نے دو سو درہم اس خاتون کو پیش کئے لیکن خاتون نے رقم لینے سے انکار کردیا، پھر اس خاتون کو آزاد کردیا گیا۔
          امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ تو کیا اس نے دو سو درہم لینے سے انکار کردیا؟‘‘ صحابی نے عرض کی: ’’جی ہاں، جبکہ وہ سخت غربت و افلاس کا شکار نظر آتی تھی‘‘۔
آپ نے اپنی جیب سے سات دینار نکالے اور فرمایا: ’’ اس خاتون کے پاس جاؤ اسے میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور یہ سات دینار بھی میری طرف سے اسے پہنچاؤ‘‘۔ بشار کہتا ہے کہ ہم اس خاتون کے گھر گئے اور اسے امام جعفر صادق علیہ السلام کا سلام پہنچایا، خاتون نے  ہم سے پوچھا کہ : ’’ کیا واقعی امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے سلام بھیجا ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’جی ہاں، امام نے آپ کو سلام بھیجا ہے‘‘۔
          یہ خوش خبری سن کر مؤمنہ فرط مسرت سے بے ہوش ہوگئی، ہم اسکے ہوش میں آنے تک وہاں ٹھرے رہے، جب مؤمنہ کو ہوش آیا تو ہم نے سات دینار اس کے حوالے کئے ۔ مؤمنہ نے کہا: ’’ سَلُوهُ‏ أَنْ‏ يَسْتَوْهِب‏ ‘‘ میری طرف سے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرنا کہ اس کنیز کے گناہوں کو اللہ سے معاف کرادیں‘‘۔ پھر ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے مؤمنہ خاتون کی فرمائش امام کی خدمت میں پیش کی، امام علیہ السلام نے رو رو کر اس کے لئے دعا مانگی۔[1]

 

 

....................................................................................
حوالہ جات
[1] بحار الانوار ج47، ص379 تا  381،،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان‏، 1404 قمرى‏۔
المزار،ص254 تا  258 ، شهيد اول، محمد بن مكى‏، محقق / مصحح: مدرسه امام مهدى عليه السلام / موحد ابطحى اصفهانى، محمد باقر،  انتشارات: مدرسه امام مهدى عليه السلام‏، قم‏، 1410 ق‏، چاپ اول‏۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 70