حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (حمد و صلوات)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ دیا، اس کا پہلا جملہ جو حمد اور صلوات پر مشتمل ہے، اس کی اس مقالہ میں مختصر تشریح کی گئی ہے۔ جیسا کہ حمد صرف اللہ تعالی سے مختص ہے اور صلوات ناقص نہیں بھیجنی چاہیے بلکہ مکمل بھیجی جائے یعنی اللہم صل علی محمد و آل محمد۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (حمد و صلوات)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بشير ابن خزيم أسدی کا کہنا ہے کہ میں نے اُس دن زینب بنت علی (علیہ السلام) کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا اور اللہ کی قسم میں نے ہرگز کوئی باحیا خاتون ان سے بہتر خطاب کرنے والی نہیں دیکھی اور گویا وہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان سے بول رہی تھیں۔ اور آپ (سلام اللہ علیہا) نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ خاموش ہوجاو تو سانسیں سینوں میں دب گئیں اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔ پھر حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: "اَلحَمدُ لِلِه وَ الصَّلوةُ عَلی اَبِی مُحمَّدٍ وَ آلِهِ الطیّبِینَ الاَخیارِ[1]"، "ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے اور صلوات ہو میرے باپ محمد اور ان کی پاک اور نیک آل پر"۔
تشریح: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے یہ پہلا مضمون نذرانہ عقیدت کے طور پر تحریر کیا جارہا ہے، اس میں آپ (سلام اللہ علیہا) نے اللہ کی حمد اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کی پاک اور نیک آل پر صلوات بھیجی ہے۔
اَلحَمدُ لِلِه: اہل بیت (علیہم السلام) کے خطبوں اور کلمات سے واضح ہوتا ہے کہ معصومین (علیہم السلام) اپنے کلام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے یا اللہ تعالی کی حمد و ثناء سے شروع کرتے تھے۔ جیسے نہج البلاغہ کے کئی خطبے اور خطوط اللہ تعالی کی حمد کے ساتھ شروع ہوئے ہیں اور بعض جو حمد کے بغیر آغاز ہوئے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خطبہ کو درمیان سے نہج البلاغہ میں نقل کیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) بھی اپنے خطبہ فدکیہ کو اللہ کی حمد سے شروع کرتی ہیں: "الحمد لله علی ما انعم[2]"۔ نیز حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مکہ سے کوفہ اور کربلا کی طرف سفر شروع کرتے ہوئے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کو اللہ کی حمد سے آغاز کیا ہے: "الحمد لله و ما شاءالله و لا قوة الا بالله[3]"۔
"الحمدللہ" کے معنی یہ ہیں کہ ساری حمد اور تعریف اللہ سے مختص ہے۔ قرآن کریم میں کئی سورتیں "الحمدللہ" سے شروع ہوئی ہیں اور کئی آیات میں حمد کو اللہ سے مختص قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں"الحمدللہ" زیادہ تر انبیاء، ملائکہ اور مومنین کے کلام کے طور پر بیان ہوا ہے۔ حمد آسمان اور زمین میں[4]، دنیا اور آخرت میں اللہ سے مختص ہے۔[5] لہذا "حمد" صرف دنیاوی زندگی میں نہیں ہے، بلکہ جنتی لوگ بھی اس بات پر کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت کی ہدایت کی ہے اور وہاں پہنچادیا ہے، اللہ کی حمد کریں گے۔[6] اور اپنی بات کو "الحمدللہ" سے ختم کریں گے۔[7]
وَ الصَّلوةُ: صلوات کے معنی درود کے ہیں جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کی آل پر بھیجا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: "إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"[8]، "بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو"۔[9] صلوات کا مطلب یہ ہے کہ بارالہا! اپنی رحمت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی آلؑ پر نازل فرما، جب آنحضرتؐ پر رحمت نازل ہو تو لوگوں تک بھی پہنچ جاتی ہے کیونکہ آنحضرتؐ پروردگار کے فیض کا واسطہ ہیں اور اگر کوئی خیر، لوگوں تک پہنچنا چاہے تو پہلے خاص رحمت کے طور پر آنحضرتؐ پر نازل ہونی چاہیے اور اس کے بعد لوگوں تک پہنچتی ہے۔
صلوات کی اہمیت اس قدر ہے کہ نماز کے تشہد میں صلوات پڑھنا واجب ہے ۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کے صحیفہ سجادیہ میں ۵۴ دعاوں میں سے ۴۶ دعاوں میں آنحضرت (علیہ السلام) کی صلوات بیان ہوئی ہے جو ملاکر ۱۹۵ یا تقریباً ۲۰۰ صلواتیں ہیں۔ بہت ساری احادیث میں آنحضرت اور اہل بیت (علیہم السلام) پر صلوات بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے۔ علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں ۶۷ حدیثیں مستقل باب میں نقل کی ہیں[10]  اور شیخ حر عاملی نے کتاب وسائل الشیعہ اور اس کی مستدرک میں صلوات کا طریقہ[11]، اونچی آواز سے صلوات بھیجنا[12] اور ان کے علاوہ اس مضمون پر دیگر عناوین کے باب بنائے ہیں۔ نیز دیگر کتب میں بھی صلوات بھیجنے کے حکم اور اس کے ثواب اور فائدوں کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔
وَ الصَّلوةُ عَلی اَبِی مُحمَّدٍ: سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی جناب زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجتے ہوئے، آنحضرتؐ کو اپنا باپ کہا جس میں کتنے فائدے، نتائج اور اثرات پائے جاتے ہیں۔ پہلا اثر: اپنا اور قیدیوں کے قافلہ کا لوگوں کو بہتر طریقہ سے تعارف کروایا اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی قرابتداری اور حددرجہ قربت کو بہترین لفظ سے واضح کردیا۔ دوسرا اثر: لوگ آپ (سلام اللہ علیہا) اور قافلہ کے دیگر افراد کو قیدیوں کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ آل رسول ؐکی نگاہ سے دیکھیں اور بلند مقام شخصیت کی عظمت کا ادراک کرتے ہوئے خطبہ کی سماعت کریں۔ تیسرااثر: لہذا جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اس طریقہ سے لوگوں کی افکار اور جذبات پر قابو پا کر ان پر اپنی باتوں کو اثرانداز کیا۔ چوتھا اثر: لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اولاد،نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد ہے، جیسا کہ آیت مباہلہ کے مطابق جناب سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالی کے حکم کے تحت عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دیتے ہوئے امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) کو کھلے اور واضح الفاظ میں "ابناءنا"[13]، "ہمارے بیٹے" کہا ہے۔ پانچواں اثر: اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں کی کوشش رہی ہے کہ اس بات کو جھٹلائیں اور شک و شبہ پیدا کریں کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اولاد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد شمار نہیں ہوتی، لہذا ثانی زہرا زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ کی ابتداء میں اللہ تعالی کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجنے کے درمیان میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی گہری قرابت کا تذکرہ کردیا جو دشمن کی غلط افواہوں کا جواب تھا۔ چھٹا فائدہ: یہ جملہ سن کر سننے والے کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا خطبہ یاد آتا ہے کہ جب سیدۃ نساء العالمین(سلام اللہ علیہا) نے خلیفہ وقت سے فدک کا مطالبہ کرنے کے لئے طویل خطبہ ارشاد فرمایا تو حمد و ثنائے الہی کے بعد اللہ کی وحدانیت کی گواہی دی اور صفاتِ پروردگار بیان کرنے کے بعد فرمایا: "وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی ‏مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ"[14]، "اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ محمد، اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں"۔
وَ الصَّلوةُ عَلی اَبِی مُحمَّدٍ وَ آلِهِ الطیّبِینَ الاَخیارِ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اپنے باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجتے ہوئے آنحضرتؐ کی آلؑ پر بھی جو پاک اور نیک ہے، صلوات بھیجتی ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے: "لاتُصَلُّوا عَلَی صَلاةَ البَتْراءِ، قالُوا: وَ ما الصَّلاةُ البَتراءُ یا رسولَ اللهِ؟ قالَ صَلَّی اللهُ علیهِ و آله: لاتَقُولُوا "اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ" وَ تُمسِکونَ، بَلْ قُولوا: "صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ[15]"، "مجھ پر ناقص صلوات نہ بھیجو۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ! ناقص صلوات کیا ہے؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: "اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ" کہہ کر رک نہ جاو، بلکہ کہو: "صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ"۔ بنابریں حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے بھی مکمل صلوات بھیجی ہے۔
نتیجہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں اپنے خطبہ کو اللہ کی حمد اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرت کی پاک اور نیک آل پر صلوات سے شروع کیا۔ عقیلہ بنی ہاشم اتنے ظلم و ستم اور مصائب سہنے کے بعد بھی جب خطبہ دینے لگیں تو اللہ کی حمد سے آغاز کیا، یہ دلیل ہے اس بات پر کہ آپؑ کا معرفت الہی کے لحاظ سے اتنے بلند مقام پر فائز تھیں کہ لوگ تو ایسے حالات میں اللہ کو فراموش کردیتے ہیں یا پھر اللہ پر اعتراض کرنے لگتے ہیں مگر آپؑ تو ایسی بات کے تصور سے بالکل پاک و پاکیزہ ہیں، لہذا اتنے غمناک حالات کو برداشت کرنے اور دکھ بھرے مناظر کو دیکھنے کے بعد بھی فرماتی ہیں: "اَلحَمدُ لِلِه وَ الصَّلوةُ عَلی اَبِی مُحمَّدٍ وَ آلِهِ الطیّبِینَ الاَخیارِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج45، ص108۔
[2] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج29، ص220۔
[3] تيسير المطالب : ص 199 ، الحدائق الورديّة : ج 1 ص 114 ، بنقل از دانشنامه امام حسين عليه السلام بر پايه قرآن، حديث و تاریخ، ری شہری، ج5، ص100۔
[4] سورہ روم، آیت 18۔
[5] سورہ قصص، آیت 70۔
[6] سورہ اعراف، آیت 43۔
[7] سورہ یونس، آیت 10۔
[8] سورہ احزاب، آیت 56۔
[9] ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[10] بحار الانوار، ج 91، ص47 - 73۔
[11] وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج7، ص 196.
[12] وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج7، ص 196.
[13] سورہ آل عمران، آیت 61۔
[14] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج29، ص240۔ الاحتجاج، طبرسی، ج1، ص133۔
[15] مستدرک سفینۀ البحار6 : 369۔ الأربعین: 482۔ الصراط المستقیم 1: 191۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 61