اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔-
اسلام کا قانونِ جنگ جسے اصطلاح شرع میں ”جہادفی سبیل اللہ “ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، کچھ تو خود ہماری بداطواریوں، اوجھی ونامناسب حرکات وسکنات، اور ہوش سے زیادہ جوش وجذباتیت کے اظہار ،دوسری جانب اعداء اسلام کی سازشوں ،افواہوں اور غلط پروپیگنڈوں اور ان کی جانب سے اس کی غلط توضیح وتشریح، اس کے حقیقی مفہوم کو پردہٴ خفامیں رکھنے کی وجہ سے، معاشرہ کی اصلاح، امنِ عامہ کے قیام اور سماج سے ظلم وسفاکیت اور فسادوبگاڑ کے دور کرنے میں اس کا حقیقی اور بامعنی کردار نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔
زیر نظر مقالہ میں اسلام کے مہذب قوانین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اسلام کی حقیقی تصویر ان لوگوں کے سامنے آسکے جو اسلام حقیقی سے نا آگاہ ہیں یا ان کو حقیقی اسلام سے دور رکھنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، نتیجہ میں ان لوگوں کے سفاک کرتوت بھی سامنے آئے جو اسلام کے نام پر سفاکیت کو انجام دے رہے ہیں۔
دورانِ جنگ بے قصور لوگوں سے تعرض کی ممانعت
اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے ، عملاً جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے ، بقیہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا ، دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو در کنار ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے ، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: ’’ لَا تَقْتُلُوا شَيْخاً فَانِياً وَ لَا صَبِيّاً وَ لَا امْرَأَةً وَ لَا تَقْطَعُوا شَجَرا ‘‘[1]کسی ضعیف و لاغر بوڑھے ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل مت کرو اور نہ بے جا درختوں کو کاٹو۔
ایک مرتبہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ ﷺنے ایک عورت کی لاش پڑی دیکھی تو ناراض ہوتے ہوئے فرمایا کہ’’ ما كانت هذه تقاتل‘‘[2] یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی اور سالار فوج خالد کو کہلا بھیجا ’’لا تقتلَنَ ذُرِّيَّةً و لا عَسِيفاً ‘‘[3]عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔
مثلہ کی ممانعت
دشمن کی لاشوں کو بے حرمت کرنے اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے کو بھی اسلام نے سختی سے منع کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہوتا ہے’’ إِيَّاكُمْ والْمُثْلَةَ، ولَوْ بِالْكَلْبِ الْعَقُورِ ‘‘[4]مردہ کے اعضابدن کاٹنے سے پرہیز کرو چاہے وہ نجس کتا (سگ موذی)ہی کیوں نہ ہو۔
نبی کریمﷺ فوجوں کو بھیجتے وقت جو ہدایات دیتے تھے، ان میں تا کید فرماتے:’’ وَ لَا تَغْدِرُوا وَ لَا تَغُلُّوا وَ لَا تُمَثِّلُوا ‘‘[5]بد عہدی نہ کرو غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو ۔
بد نظمی اور انتشار کی ممانعت
اہل عرب کی عادت تھی کہ جب جنگ کو نکلتے تو راستہ میں جوملتا ،اسے تنگ کرتے اور جب کسی جگہ اُترتے تو ساری منزل پر پھیل جاتے تھے یہاں تک کہ راستوں پر چلنا مشکل ہو جاتا تھا۔ داعئ اسلام نے آکر اس کی بھی ممانعت کر دی۔ ایک مرتبہ جب آپ جہاد کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو آپﷺ کے پاس شکایت آئی کہ فوج میں عہد ِجاہلیت کی سی بد نظمی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں نے راستہ کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس پر آپﷺ نے منادی کرائی’’ أَمَرَ مُنَادِيَهُ فَنَادَى مَنْ ضَيَّقَ طَرِيقَنَا فَلَا جِهَادَ لَهُ ‘‘[6] جو کوئی راستہ کوتنگ کرے گا یا راہ گیروں کولوٹے گا اس کا جہاد نہیں ہوگا۔
وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایات
فوجوں کی روانگی کے وقت جنگی برتاؤ کے متعلق ہدایات دینے کاطریقہ جس سے اُنیسویں صدی کے وسط تک مغربی دنیا نابلد تھی، ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے اُمی پیغمبرﷺ نے جاری کیاتھا۔ داعئ اسلامﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپ ﷺکسی سردار کو جنگ پر بھیجتے تو اسے اور اس کی فوج کو پہلے تقوٰی اور خوف خدا کی نصیحت کرتے، پھر فرماتے :’’ اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ، وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، وَ لَا تَغْدِرُوا، وَ لَا تَغُلُّوا، وَ لَا تُمَثِّلُوا، وَ لَا تَقْتُلُوا وَلِيدا ‘‘[7] جاؤ سب اللہ کی راہ میں لڑو ، اُن لوگوں سے جواللہ سے کفر کرتے ہیں۔مگر جنگ میں بد عہدی نہ کرو ، غنیمت میں خیانت نہ کرو ، مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔
مطالب بالا کو بغور مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈے کے اس دور میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف ذرائع تشہیر کے ذریعے اسلامی احکام وتعلیمات کے روشن اور تابناک پہلووٴں کا اظہار کرتا رہے، تاکہ رفتار زمانہ اور خود مسلمانوں کی غفلت اور نادانی کے نتیجے میں ، اسلامی تعلیمات کی خوبیوں پر گردوغبار کی جو دبیز تہہ جم چکی ہے اس کی صفائی ہو، اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی روشن وتابناک چہرہ لوگوں کے سامنے آئے، جس کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ اغیار واجانب کی غلط فہمیوں پر مبنی نظریات وتصورات کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی راہیں کھلیں گی۔
.....................................................................................................
حوالہ جات
[1] الكافي، كلينى، ج5، ص27، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1407 ق، چاپ چهارم۔
[2] الفائق في غريب الحديث،ج1، ص396، زمخشرى، محمود بن عمر،583 ق،محقق/مصحح: شمس الدين، ابراهيم، بيروت، 1417 ق، نوبت اول۔
[3] الفائق في غريب الحديث،ج1، ص396، زمخشرى، محمود بن عمر،583 ق،محقق/مصحح: شمس الدين، ابراهيم، بيروت، 1417 ق، نوبت اول۔
[4] مكاتيب الأئمة عليهم السلام، ج2، ص256، احمدى ميانجى، على، محقق / مصحح: فرجى، مجتبى، دار الحديث، قم، 1426 ق، چاپ اول۔
[5] الكافي، كلينى، ج5، ص30، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1407 ق، چاپ چهارم۔
[6] مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج۱۷، ص۱۲۲، نورى، حسين بن محمد تقى،محقق / مصحح: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، 1408 ق، چاپ اول۔
[7] الكافي، كلينى، ج9، ص413، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: دار الحدیث، دار الحدیث، قم، 1429 ق، چاپ اول۔
Add new comment