اسلام
خلاصہ: اس مختصر نوشتہ میں اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آیا حضرت معصومہ(علیہا السلام) کو شھید کیا گیا تھا یا آپ کا معمول کے مطابق انتقال ہوا تھا، لھذا آپ کی موت کو شھادت کہنا چاہیئے یا وفات؟
خلاصہ: اذان، اسلام کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور اس کے سب سے پہلے مؤذن حضرت بلال حبشی تھے جنھوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے اذان دی۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بارالہا! ہم سے یہ قربانی قبول فرما، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمل جتنا بڑا ہو، اصل یہ ہے کہ اللہ اسے قبول فرمائے۔
خلاصہ: غزوہ دومۃ الجندل ان غزوات میں سے ہے جس میں کسی بھی سپاہی کا خون نہیں بہا اور بغیر کسی لڑائی کے مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اور یہ جگہ تاریخ میں کئی مناسبتوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
خلاصہ: اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان، مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔ پھر ایسا دین کس طرح کسی کو فساد فی الارض اور دہشت کی اجازت دے سکتا ہے۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفہ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کوفیوں کی چار بری صفات بیان کرکے ان کی مذمت کررہی ہیں جن پر ہمیں چاہیے کہ غور کریں، کہیں حالات کے بدل جانے سے یہ صفات ہمارے اندر جنم نہ لے لیں، کیونکہ اہل کوفہ کی ان صفات کی بنیاد پر مذمت ہوئی ہے تو جب یہ صفات یقینا قابل مذمت ہیں تو جس شخص میں یہ صفات آجائیں وہ شخص بھی یقیناً لائق مذمت بوگا۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ دیا اس خطبہ کے منظر اور ماحول سے کئی اہم نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہوئے ان کو اس عورت سے تشبیہ دے رہی ہیں جس عورت کے مذمت آمیز کام جیسا کام کرنے سے منع کیا ہے، اس سے قرآن کریم یہ درس دینا چاہتا ہے کہ بیعت اور عہد کو مت توڑو، اور آنحضرتؑ اس تشبیہ کے ذریعہ یہ سمجھانا چاہ رہی ہیں کہ تم اہل کوفہ عہد شکن ہو۔
خلاصہ: جناب زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کے منافقت بھرے گریہ کی مذمت کی اور ان کے گریہ کے نہ رک پانے کے لئے بددعا کی۔