اسلام
خلاصہ: داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام دیے جانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و بربریت کے لیبل کو ہٹانا ہے۔
خلاصہ: اس مختصر نوشتہ میں اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آیا حضرت معصومہ(علیہا السلام) کو شھید کیا گیا تھا یا آپ کا معمول کے مطابق انتقال ہوا تھا، لھذا آپ کی موت کو شھادت کہنا چاہیئے یا وفات؟
خلاصہ: اذان، اسلام کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور اس کے سب سے پہلے مؤذن حضرت بلال حبشی تھے جنھوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے اذان دی۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بارالہا! ہم سے یہ قربانی قبول فرما، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمل جتنا بڑا ہو، اصل یہ ہے کہ اللہ اسے قبول فرمائے۔
خلاصہ: غزوہ دومۃ الجندل ان غزوات میں سے ہے جس میں کسی بھی سپاہی کا خون نہیں بہا اور بغیر کسی لڑائی کے مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اور یہ جگہ تاریخ میں کئی مناسبتوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
خلاصہ: اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان، مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔ پھر ایسا دین کس طرح کسی کو فساد فی الارض اور دہشت کی اجازت دے سکتا ہے۔
خلاصہ: بے شک دین اسلام، امن و آشتی کا دین ہے، جس کی ابتدا بھی سلامتی سے ہوئی اور جس کا اختتام بھی خیر ہے، جس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ جس کے نفوذ سے معاشرہ میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔
خلاصہ: جناب زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کے منافقت بھرے گریہ کی مذمت کی اور ان کے گریہ کے نہ رک پانے کے لئے بددعا کی۔
خلاصہ: جناب عبد اللہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد تھے، آپ اپنے قبیلہ میں بہت زیادہ مشھور تھے، آپ حضرت ابراھیم(علیہ السلام) کے دین پر باقی تھے۔