خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفہ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کوفیوں کی چار بری صفات بیان کرکے ان کی مذمت کررہی ہیں جن پر ہمیں چاہیے کہ غور کریں، کہیں حالات کے بدل جانے سے یہ صفات ہمارے اندر جنم نہ لے لیں، کیونکہ اہل کوفہ کی ان صفات کی بنیاد پر مذمت ہوئی ہے تو جب یہ صفات یقینا قابل مذمت ہیں تو جس شخص میں یہ صفات آجائیں وہ شخص بھی یقیناً لائق مذمت بوگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ کا اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی پاک اور نیک آل پر صلوات بھیجتے ہوئے آغاز کیا، اس کے بعد کوفیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کی اس طرح مذمت کی: "أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ أَتَبکُونَ فَلا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لا هَدَأَتِ الرّنّةُ إِنَّما مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَلَا وَ هَل فِيكُم إِلّا الصَّلِفُ النَّطِفُ وَ الصَّدرُ الشَّنَفِ وَ مَلِقُ الامَاءِ وَ غَمزُ الأَعدَاءِ "[1]،"اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ کرنے والو اور عہد توڑ دینے والو کیا گریہ کرتے ہو؟ تمہارے آنسو نہ رُکیں اور تمہاری آہ و فغان بند نہ ہو، تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو کیا تم میں کچھ پایا جاتا ہے سوائے ذلت میں ملی جلی ہوئی خودستائی، کینہ سے بھرا ہوا سینہ، کنیزوں کی طرح خوشامد کرنا اور دشمنوں سے خفیہ گٹھ جوڑ"۔
تشریح: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے یہ پانچواں مضمون نذرانہ عقیدت کے طور پر تحریر کیا جارہا ہے، جس میں کوفیوں کی چار بُری صفات کے سلسلے میں گفتگو ہورہی ہے۔ حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اہل کوفہ کی مذمت کرتے ہوئے ان میں پائی جانے والی بری صفات کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی کلمہ حصر "إِلّا" کے ساتھ یعنی سوائے ان صفات کے تم میں کچھ نہیں پایا جاتا، وہ صفات مندرجہ ذیل ہیں (پہلے لغوی معانی اور پھر وضاحت بیان کی جائے گی):
صَلِف: خودستائی (اپنی تعریف اور بڑائی)، بے مزہ کھانا، دعویدار، بے اثر اور کم بارش والے بادل کی گرج۔ نَطِف: عیب اور برے کام سے بھرا ہوا، نجس، جس چیز پر شک و شبہ ہو۔ شَفْ: کینہ رکھنے والا۔ مَلِق: چاپلوس (خوشامدی)، فَرَسٌ مَلِق وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کے دوڑنے پر اعتماد نہ ہو۔ غَمْز: ابرو اور آنکھ کے کونے سے اشارہ۔ اس فقرے میں بنت علی زینب کبری (علیہماالسلام) نے کوفیوں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں: ذلت میں ملی جلی ہوئی خودستائی، کینہ سے بھرا ہوا سینہ، خوشامد کرنا، دشمن ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
أَلَا وَ هَل فِيكُم إِلّا الصَّلِفُ النَّطِفُ: اس جملہ میں آنحضرتؑ کوفیوں کو خودستائی کی مرض کا شکار سمجھ رہی ہیں جو اپنے تخیلات اور توہمات میں چکر کاٹتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ اولاً: اپنے آپ کو اہل بیت (علیہم السلام) کے حبدار اور پیروکار سمجھتے تھے اور ثانیاً: ماضی میں اہل بیت (علیہم السلام) سے کی ہوئی حمایت پر فخر کرتے تھے۔ جناب زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) کا یہ فرمان اس حقیقت کو واضح کررہا ہے کہ جن باتوں پر تم فخر کررہے ہو، وہ جھوٹے دعووں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ گھمنڈ، نفس کی دھوکہ بازیوں سے جنم لیے ہیں جو تمہاری خودستائی کا باعث بنے ہیں، کیونکہ مخلص اور حقیقت بین شخص ہرگز اپنے اعمال پر خوش نہیں ہوجاتا اور مسلسل اپنی کیفیت سے خائف رہتا ہے۔ نیز محبت اہل بیت (علیہم السلام) کا صرف اظہار اور دکھاوا ہی خودستائی اور فخر کا باعث نہیں بن سکتا خصوصاً جب یہ دکھاوا نازک حالات میں دشمنی میں بدل جائے جیسا کہ آپؑ اگلے جملہ میں فرماتی ہیں:
وَ الصَّدرُ الشَّنَفِ: کیا تم میں سوائے … اور کینہ سے بھرا ہوا سینہ اور … پایا جاتا ہے؟! ایسے لوگ جن کے وجود میں تضاد اورتنافی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف سے تم اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے دوسروں پر فخر کرتے ہو اور حالات کے بدل جانے سے اپنے سینہ کو ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے کینہ سے بھرکر ہمارے خلاف فوج تیار کرتے ہو!
وَ مَلِقُ الامَاءِ:یہ کوفیوں کی تیسری بری صفت ہے یعنی دشمن کی خوشامد کرنا۔ "مَلِق الإماءِ "کے الفاظ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ منافقت تم لوگوں میں اتنی گہری ہوچکی ہے کہ تمہاری زبان خوشامد اور چاپلوسی کرنے میں ان کنیزوں کی طرح ہے جو اپنے آقا کی مدح و ثناء اور خوشامد کرتی ہیں تا کہ اسے اپنی طرف متوجہ کرسکیں، زبان سے ایسی باتیں کرتی ہیں جن پر دل میں کوئی عقیدہ نہیں ہوتا اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے چرب زبانی اور چکنی چپڑی باتیں کرتی ہیں چاہے اس خوشامد کے لیے ذلت و خواری اٹھانا پڑے، تم اہل کوفہ بھی اسی طرح یزید اور ابن زیاد اور ان کے ساتھیوں جیسے خیانتکار حکمرانوں کی خوشامد کرتے ہو اور تم جو ان کا احترام کرتے ہو اپنے فائدہ کے لئے کرتے ہو نہ کہ صداقت، سچائی اور وفاداری کی بنیاد پر۔ اس صفت سے بالکل واضح ہورہا ہے کہ کوفیوں کے وجود میں منافقت رچ گئی تھی۔ ایسی بری صفت کا پایا جانا، انسانی معاشرے سے نکل جانے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ یہ صفت اتنی بری اور نقصان دہ ہے کہ ان لوگوں کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ معاشرہ لوگوں کے باہمی اعتماد پر قائم ہوتا ہے۔
وَ غَمزُ الأَعدَاءِ: دشمنوں کے سامنے ذلت اور حقارت۔ غمز یعنی آنکھ اور ابرو سے اشارہ کرنا۔[2] مرحوم سید محمد کاظم قزوینی اس فقرہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاید حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا اس جملہ سے مراد یہ ہو کہ اے کوفہ کے لوگو! تم وہ لوگ ہو کہ دشمن، جیسے ابن زیاد اور اس کے ساتھی، حقارت کرتے ہوئے تمہیں آنکھ کے کنارے سے دیکھتے ہیں اور تمہارے ساتھ انتہائی تحقیر اور ذلت سے برتاو کرتے ہیں اور تم ان کے ہاں کسی عزت و احترام کے حامل نہیں ہو، بلکہ وہ تمہیں صرف اپنی غلامی اور بندگی کے لئے اور پُل کے طور پر اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لئے چاہتے ہیں اور دل میں تمہارے لیے کوئی احترام اور قدر کے قائل نہیں ہیں۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی یہ بات کوفہ کے لوگوں کے لئے انتباہ اور بیدار کرنے والی صدا ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ کس حد تک اپنی خوداعتمادی اور وقار کھو بیٹھے ہیں کہ اپنے آپ کو ایسے پست اور حقیر افراد کا آلہ کار بنا دیا ہے۔[3]
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں معاویہ سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں کوفیوں کی یوں مذمت کرتے ہیں: "خدا کی قسم میں تمہارے متعلق یہ گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑ لے اور موت کی گرم بازاری ہو، تو تم ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاؤ گے ، جس طرح بدن سے سَر (کہ دوبارہ پلٹنا ممکن ہی نہ ہو) جو شخص کہ اپنے دشمن کو اس طرح اپنے پر قابو دے دے کہ وہ اس کی ہڈیوں سے گوشت تک اڑا ڈالے ، اور ہڈیوں کو توڑ دے ، اور کھال کو پارہ پارہ کردے ، تو اس کا عجز انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور سینے کی پسلیوں میں گھرا ہوا (دل) کمزور و ناتواں ہے ۔ اگر تم ایسا ہونا چاہتے ہو تو ہوا کرو۔ لیکن میں تو ایسا اس وقت تک نہ ہونے دوں گا۔ جب تک مقام مشارف کی (تیز دھار) تلواریں چلا نہ لوں کہ جس سے سَر کی ہڈیوں کے پرخچے اڑ جائیں ، اور بازو اور قدم کٹ کٹ کر گرنے لگیں"۔[4]
نتیجہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کی ایسی صفات بیان کیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں کوئی خیر اور خوبی نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ انہی چار بری صفات کے حامل ہیں۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کی بنیاد پر خودستائی کرتے ہیں اور ادھر سے حالات کے بدل جانے سے اہل بیت (علیہم السلام) کا کینہ دل میں بھر لیتے ہیں، آخری دو صفات یہ ہیں کہ وہ دشمن کی خوشامد کرتے ہیں اور دشمن انہیں اتنا حقیر اور پست سمجھتا ہے کہ انہیں صرف آنکھ کے کونے سے دیکھتا ہے، ایسا عمل اور ردعمل ہمارے معاشرے میں بھی پایا جاتا ہے کہ بعض لوگ متکبر افراد کی خوشامد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے سامنے اتنا گرا دیتے ہیں کہ وہ متکبر لوگ سر اٹھا کر ان کو دیکھنا نہیں چاہتے اور ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے صرف آنکھ کے کونے سے دیکھ کر ان کو ٹھکرا دیتے ہیں یا ان کی تحقیر کردیتے ہیں۔ لہذا انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو حقیر کرے اور اللہ تعالی کی عطاکردہ عزت اور کرامت کو ضائع کردے۔ یہ غور طلب بات ہے کہ انسان خیال رکھے کہ اس میں ایسی صفات نہ آنے پائیں کیونکہ ایسی صفات کوفیوں کی صفات ہیں جن کی وجہ سے حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے ان کی مذمت کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
[2] کتاب العین، خلیل ابن احمد۔
[3] اقتباس از: ترجمہ فارسی کتاب زینب الکبری من المہد الی اللحد، سید محمد کاظم قزوینی، ص212۔
[4] خطبہ 34، ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔
Add new comment