خلاصہ: غزوہ دومۃ الجندل ان غزوات میں سے ہے جس میں کسی بھی سپاہی کا خون نہیں بہا اور بغیر کسی لڑائی کے مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اور یہ جگہ تاریخ میں کئی مناسبتوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دومۃ الجندل حجاز، شام اور عراق کے درمیان واقع ہے جہاں بعض مشرکوں نے بسیرا ڈال رکھا تھا اور مسلم اور غیر مسلم تاجروں کو لوٹتے تھے اور تشدد کا نشانہ بناتے تھے، راہزنوں اور مشرکوں کا یہ اجتماع اسلامی حکومت کے لئے بھی خطرہ سمجھا جارہا تھا، جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کے اس تشدد سے مطلع ہوئے تو آپ نے ان کو انکے کاموں سے روکنے کی غرض سے ایک جہادی مہم کا فیصلہ کیا تاکہ تجارتی کاروان امن و امان کے ساتھ۔ وہاں سے گزر سکیں۔
۲۵،ربیع الاول ۵،ہجری کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے "سباع ابن عرفطہ غفاری" کو مدینہ میں جانشین مقرر کیا اور ایک ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر مدینہ سے خارج ہوئے اور دومۃ الجندل کی طرف روانہ ہوئے، آپ نے حکم دیا کہ مسلمان راتوں کو سفر کریں اور دنوں کو چھپ کر رہیں تاکہ مشرکین کو ان کے آنے کی خبر نہ پہونچے، لیکن مشرکین کو کسی طرح سے لشکر کے بارے میں اطلاع دستیاب ہوگئی جیسے ہی انھیں اس بات کی خبر ملی کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان پر حملہ کرنے والے ہیں وہ لوگ شہر سے نکل کر اطراف کی طرف بھاگ کر پھیل گئے، اور جب مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا تو انہیں وہ پورا علاقہ خالی ملا، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے چند روز وہیں پر قیام فرمایا اور علاقہ کے لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مجاہدین کے کئی دستے اطراف کی طرف روانہ کئے لیکن انہیں کوئی بھی نظر نہ آیا سوائے ایک شخص کے جو ان کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب نہ ہوسکا، مسلمانوں نے اس شخص سے پوچھا کہ دومۃ الجندل کی عوام کہاں گئی؟ اس شخص نے کہا: "وہ سب مل کر یہاں سے فرار ہوگئے تاکہ تمہاری طرف سے کسی بھی قسم کے نقصان سے امان میں رہیں۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس شخص کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کرلیا، یوں یہ غزوہ بغیر کسی مسلحانہ جنگ کے اختتام کو پہونچا، سپاہ اسلام ۲۰،ربیع الثانی کو بغیر کسی نقصان کے مال غنیمت کے ساتھ مدینہ واپس ہوئی[۱] ۔
اس علاقے میں "غزوہ دومۃ الجندل" سمیت کئی تاریخی واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے اسلامی منابع و تواریخ میں اس مقام کا نام متعدد بار دہرایا گیا، اس علاقے کا دوسرا نام جوف السرحان تھا اور جنگ صفین کے بعد حکمیت کا واقعہ بھی ہہیں پر رونما ہوا۔
تفصیل کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں:
۱۔ جمال الدين أبو الفرج الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، محقق: محمد عبد القادر عطا، دار الكتب العلمية، بيروت، ۱۴۱۲هـ،۱۹۹۲م۔
۲۔ محمد ابن عمر واقدی، المغازی،محقق: جونز، مارزدن،علمی،بیروت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] أبو الحسن علي بن محمد ماوردي، الحاوي الكبير، محقق: الشيخ علي محمد معوض، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، ۱۴۱۹هـ۱۹۹۹م۔
Add new comment