حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی شھادت یا وفات

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مختصر نوشتہ میں اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آیا حضرت معصومہ(علیہا السلام) کو شھید کیا گیا تھا یا آپ کا معمول کے مطابق انتقال ہوا تھا، لھذا آپ کی موت کو شھادت کہنا چاہیئے یا وفات؟

حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی شھادت یا وفات

حضرت معصومہ(علیہا السلام) کا مختصر تعارف:
آپ کا نام ’فاطمہ‘ ہے اور آپ کے والدِ بزرگوار ساتویں امام ’موسی ابن جعفر‘(علیہما السلام) ہیں، آپ کی والدہ کا نام ’نجمہ خاتون‘ ہے اور امام رضا (علیہ السلام) آپ کے بڑے بھائی ہیں۔
آپ کی ولادت پہلی ذی القعدہ  سن 173 ھ۔ْق میں ہوئی اور 28 سال کے سِن میں 10 ربیع الثانی سَن 201ھ۔ق میں آپ کی شھادت ہوئی۔[1]اور پھر ’’باغ بابلان‘‘ میں (جس مقام پر آپ ؑ کا حرم مطہر واقع ہے) سپرد خاک کی گئیں۔

مدینہ سے خراسان کا سفر:
سَن 201 ھ۔ق میں حضرت معصومہ (علیہا السلام) نے مدینہ منورہ سے اپنے کچھ بھائیوں کے ساتھ خراسان کی طرف، اپنے بھائی اور امام وقت امام رضا (علیہ السلام) سے ملاقات کے لیئے سفر شروع کیا۔ لیکن ’ساوہ‘ نامی شھر میں حکومت کے اہل کاروں اور دشمنوں نے آپ کے کاروان پر حملہ کیا۔[2]

آپ کی شھادت کے اسباب:
 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موت کے مختلف اسباب ہوتے ہیں اور اللہ (جل جلالہ) کی نگاہ میں درجہ ’شھادت‘ موت کا پسندیدہ اور بہتریں راستہ ہے۔[3]
واضح ہے کہ شھادت کے لیئے ضروری نہیں کہ کسی کو تلوار سے ہی شھید کیا جائے بلکہ اور بھی اسباب شھادت کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے:
۱) بہت زیادہ غم و اندوہ
جناب معصومہ (علیہا السلام) جو اپنے بھائی امام رضا (علیہ السلام) سے بچپن سے مانوس تھیں اور ٓامام موسی الکاظم(علیہ السلام) کی شھادت کے بعد امام رضا(علیہ السلام) نے پوری پرورش کی، جب امام رضا (علیہ السلام) کو زبردستی مدینہ سے خراسان بلوایا گیا تو اس جدائی نے جناب معصومہ (علیہا السلام) کو بہت صدمہ پہنچایا۔
’مرو‘ میں جناب معصومہ(علیہا السلام) کے سامنے انکے بھائیوں کو بے دردی سے شھید کر دیا گیا، اپنے بھائیوں اور عزیزوں کو خاک و خوں میں غلطاں دیکھ کر بہت غم زدہ ہوئیں اور تاب نہ لا سکیں اور بیمار ہوگئیں[4]، لھذا فرمایا’مجھے قم لے چلو؛ کیونکہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ شہر قم، ہمارے شیعوں کا مرکز ہے‘[5]
۲) حکومت کے مظالم
یہ تو تاریخی حقیقت ہے کہ عباسی خلیفہ ’مامون‘، اہلبیت اطہار(علیہم السلام) کا دشمن تھا اور مختلف بہانوں سے اہلبیت (علیہم السلام) کے چاہنے والوں پر شدید ظلم ڈھایا کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے امام رضا (علیہ السلام) کو بھی شھید کر دیا تھا۔ لھذا اس زمانے کی سیاسی فضا کے مطابق یہ عین ممکن تھا کہ مامون جناب معصومہ (علیہا السلام) کو جانی نقصان پہنچائے کیونکہ وہ حضرت (علیہا السلام) کے علمی مقام اور فضیلت سے واقف تھا اور یہ جانتا تھا کہ جناب معصومہ (علیہا السلام) کا امام رضا (علیہ السلام) کے ساتھ رہنا اسکی حکومت کو نابود کردے گا، اسی لیئے جناب معصومہ (علیہا السلام) اور انکے ساتھ انکے اعزا کے آنے کی خبر نے مامون کو پریشان کر دیا تھا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ کاروان امام رضا (علیہ السلام) سے ملے، اسی کے درپے راستہ میں ہی کاروان پر حملہ کروادیا۔
۳) جانب معصومہ(علیہا السلام) کو زہر دیا گیا
ایک روایت کے مطابق جناب معصومہ(علیہا السلام) کو اپنے معصوم آباء و اجداد کی مانند اپنی شھادت کا علم تھا اور یہ جانتیں تھیں کہ قم میں انکی شھادت واقع ہو گی، شاید اسی لیئے آخری وقت میں قم جانے کی تمنا ظاہر کی۔
روایت کے مطابق ’ساوہ‘ میں ایک عورت نے بی بی (علیہا السلام) کو زہر دیا تھا۔[6]

نتیجہ:
ان تاریخی شواھد کی بنا پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ جناب معصومہ کی موت قدرتی حلات میں نہیں ہوئی اور آپ کو مختلف اذیتیں اور زہر دے کر شھید کیا گیا۔ جو بات مسلم ہے وہ یہ کہ آپ کی اپنی جدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مختلف شباہتوں [7]میں ایک شباھت یہ بھی ہے کہ آپ کو بھی بنت رسول (سلام اللہ علیہا) کی طرح شدید اذیتیں اور مصائب ڈھائے جانے کے سبب شھید کر دیا گیا۔
لھذا جناب معصومہ (علیہا السلام) کے فضائل و کمالات اور زندگی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آپ کی موت کو رحلت یا وفات کے بجائے ’شھادت‘ سے تعبیر کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] وسيله المعصوميّه , ص 65 ۔ نزهۃ الابرار سے اخذ شدہ
[2] زندگاني حضرت معصومه , مهدي منصوري , ص 14 ۔ رياض الانساب , تأليف ملك الكتّاب شيرازي سے اخذ شدہ
[3] ’’وَلَاتَحسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلُوا فِی سبیلِ اللّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ یرزقونَ‘‘۔ سورہ آل عمران 169
[4] درياي سخن , سقازاده تبريزي
[5] ودیعه آل محمد صلی الله علیه و آله، ص 12
[6] وسيله المعصوميه, نوشته ميرزا ابوطالب بيوک, ص 68, الحياه السياسيه للامام الرضا عليه السلام, نوشته جعفر مرتضي العاملي, ص 428؛ قيام سادات علوي، علي اكبر تشيّد، ص168
[7]حضرت فاطمہ زہراء (س) سے حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شباہتوں کے لیئے اس لینک پر مطالعہ کریں http://www.welayatnet.com/ur/news/96331 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66