خلاصہ: بے شک دین اسلام، امن و آشتی کا دین ہے، جس کی ابتدا بھی سلامتی سے ہوئی اور جس کا اختتام بھی خیر ہے، جس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ جس کے نفوذ سے معاشرہ میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔
آج کل امریکہ اور اس کی ہمنوا حکومتیں اور خبررساں ایجنسیاں اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح بڑے شدومد سے استعمال کررہی ہیں۔ اسلام دشمن یہ طاقتیں اپنے اس بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈہ کے ذریعہ عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ عصر حاضر میں امن عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسلام اور اسکے پیرو مسلمان ہیں جبکہ ادیان وملل کی طویل فہرست میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی ہر چیز میں دہشت و وحشت کی بجائے شفقت و رحمت نمایاں ہے۔ اس کا خدا ”رب العالمین“ تمام عالم کا پالنے والا ہے ”رحمن و رحیم“ ہے اس کے خدا کی تمام صفتوں میں رحمت و رافت غالب ہے، اس کی آسمانی کتاب قرآن حکیم میں تین سو سے زائد آیتوں میں صفت رحمت کا ذکر ہے حتیٰ کہ اس کتاب مقدس کی ابتداء ہی اسم ذات اللہ کے بعد رحمن و رحیم سے ہوتی ہے۔ جس میں صاف لفظوں میں یہ اعلان کیاگیا ہے کہ "كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ"( الانعام/12)تمہارے رب اور پالنہار نے اپنے اوپر رحمت ثبت کرلی ہے۔
جس کی صدائے عام ہے کہ خداے رؤف و رحیم کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اوراس کے احکام کے توڑنے والوں کو بھی اس کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے: "قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ" (الزمر/53) اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اعلان کردیجئے کہ میرے جن بندوں نے نافرمانی کرکے اپنے اوپر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں بیشک خدا تمام گناہوں کو معاف کرتا ہے بلاشبہ وہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کی رحمت بے پایاں کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی ہے: "إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِی"میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے،[1] پہاڑ کے برابر گناہ بھی رحمت خدا وندی کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
مذہب اسلام کا رسول اور ہادی و پیغمبر بھی ”رحمت للعالمین“ اور سراپا رحمت و شفقت ہے اللہ پاک کا ارشاد ہے : "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ"( الانبیاء/107)ہم نے آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے:" إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ " میری ذات سراپا رحمت ہے جو خلق خدا کو منجانب خدا بطور عطیہ مرحمت کی گئی ہے۔[2]
مذہب اسلام دشمنوں کے ساتھ بھی بے انصافی کو پسند نہیں کرتا اور شاہراہ انصاف پر قائم رہنے کی تاکید کرتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ" (المائدہ /8) اے ایمان والو آمادہ رہو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔
مذہب اسلام کی امن پسندی اور عفو و درگذر کا یہ عالم ہے کہ وہ ذاتی معاملات میں انسانی نفسیات کا لحاظ کرکے اگرچہ مظلوم کو اس کا حق دیتا ہے کہ وہ چاہے تو برابر کا بدلہ لے لے، لیکن اسی کے ساتھ عفو و درگذرکو بدلہ لینے سے بہتر قرار دیتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس پر اجر و ثواب کی بشارت دیتا ہے۔
ارشاد خدا وندی ہے : ”وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ“ (الشوری/40)اور برائی اور ظلم و زیادتی کا بدلہ ویسے ہی برائی ہے، لیکن جو شخص معاف کردے اور صلح و صفائی کرلے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا: ”وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ“(النحل/126)اوراگر تم پر سختی کی گئی تو تم بھی ویسی ہی سختی کرلو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی، اگر تم صبر سے کام لو تو وہ صبر کونے والوں کے لیے بہتر ہے۔
مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات واحکامات سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ اسلام ایک دین رحمت ہے، اسلام میں ظلم و جبر، دہشت گردی اور جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے جو لوگ اسلام دشمنی میں اس کی جانب دہشت گردی کو منسوب کرتے ہیں ان کا یہ رویہ بجائے خود ایک دہشت گردی ہے، اس لیے انہیں اپنے اس ناروا رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الکافی، ج2، ص268، محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى رازى، اتنشارات دار الكتب الإسلامية، تهران، چاپ چهارم، 1365 هجرى شمسى۔
[2] بحار الانوار، ج16، ص115، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
Add new comment