خلاصہ: اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان، مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔ پھر ایسا دین کس طرح کسی کو فساد فی الارض اور دہشت کی اجازت دے سکتا ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لھذا جہاں دہشت گردی ہوگی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی نہیں ہوگی۔
دہشت گردی آج کے دَور میں ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس سے ہر طبقہ کے انسانوں کے کان آشنا ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک خوفناک تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ تصور کسی دلفریب وخوش گوار وادی کا نہیں۔ کسی پارٹی یا عدالت کا نہیں بلکہ انسانی احترام وعظمت کی پامالی کا، انسانیت کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کے لہو سے تربتر دامنوں کا، سڑکوں پر بہتے اور منجمد خونوں کا، بم دھماکوں اور سفاکیت کے اعلیٰ مظہر عراق، افغانستان اور فلسطین میں بے گناہ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ وحشت وبربریت، ظلم وستم اور ناجائز طور پر ان کے حقوق کی پامالی کا ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تار و پور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
دہشت گردی کی اس مسموم فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ سینوں میں ہمدردی اورانسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا دل رکھنے والے انسانوں کی سسکیاں احساس کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔
دہشت گردی ایک ایسا فعل یا عمل ہے جس سے معاشرہ میں دہشت و بد امنی کا راج ہو اور لوگ خوف زدہ ہوں، وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں۔ دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑےمقاصد کے لئے کرتے ہیں۔ اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی۔
اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشاد خدا وندی ہے: "مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا"(المائدہ/32) جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘ اور جس کسی نے کسی کی جان بچائی گویا اس نے پورے معاشرہ کو بچایا ہے، اس آیت کے آئینہ میں اگر طالبان اور القائدہ دیکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ سب دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاذ کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اور قتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔
اسلام ظلم و تشدد کو ایک لمحہ کے لیے بھی روا نہیں رکھتا، اس کے نزدیک ظلم و تشدد سے انسانی فطرت مسخ ہوجاتی ہے، معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے اور دنیا ویران ہوجاتی ہے اس لیے قرآن حکیم میں عدل وانصاف کی توصیف وتعریف سے کہیں زیادہ ظلم کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کے نزدیک ظالم ہدایتِ الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے: "وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا" (الفرقان/37)ہم نے ظلم کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "اتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّهُ ظُلُمَاتُ يَوْمِ الْقِيَامَةِ" ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیرا ہوجائے گا، [1]ایک حدیث میں ارشاد ہے: " الْتِقَا عِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ لَهَا حِجَابٌ دُونَ الْعَرْشِ" مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔[2]
اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کا ایک کنبہ ہے اورسب کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے "الْخَلْقُ كُلُّهُمْ عِيَالُ اللَّهِ فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيْهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِه" [3]ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیاری وہ مخلوق ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اسلام سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتہ سے بھائی مانتا ہے اور ان کو بھائیوں کی طرح باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے: "لَا تَبَاغَضُو وَ لَا تَحَاسَدُوا وَ لَا تَدَابَرُوا وَ لَا تَقَاطَعُوا وَ كُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَاناً"[4]ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے تعلقات نہ توڑو اور خدا کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔
انسان تو انسان ہیں اسلام جانوروں کو بھی ایذاء پہنچانے اور تکلیف دینے کی بتاکید ممانعت کرتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت کو محض اس بناپر عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر اس کا کھانا پینا بند کردیا تھا، جس سے وہ مرگئی، جانوروں پر شفقت کی یہ انتہا ہے کہ غصہ اور جھنجھلاہٹ میں بھی انہیں کوسنے اور ان پر لعنت بھیجنے تک کی ممانعت ہے۔ اسلام کی ہدایت ہے کہ جو جانور جس کام کے لیے پیدا کیاگیا ہے اس سے وہی کام لینا چاہیے۔
اسلام کی اتنی واضح اور روشن تعلیمات کے باوجود بھی کچھ شر پسند انسان اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں، لہذا تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ دُشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کو بھی، اور جوش انتقام میں اندھا ہو جانے والوں کو بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الکافی، ج2، ص232، محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى رازى، اتنشارات دار الكتب الإسلامية، تهران، چاپ چهارم، 1365 هجرى شمسى۔
[2] بحار الانوار، ج90، ص343، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
[3] بحار الانوار، ج5، ص314، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
[4] بحار الانوار، ج73، ص38، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
Add new comment