حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کا منافقانہ گریہ)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کے منافقت بھرے گریہ کی مذمت کی اور ان کے گریہ کے نہ رک پانے کے لئے بددعا کی۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کا منافقانہ گریہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ کا اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی پاک اور نیک آل پر صلوات بھیجتے ہوئے آغاز کیا، اس کے بعد کوفیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کی یوں مذمت کی: "أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ أَتَبکُونَ فَلا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لا هَدَأَتِ الرّنّةُ"[1]، "اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ کرنے والو اور عہد توڑ دینے والو کیا گریہ کرتے ہو؟ " تمہارے آنسو نہ رُکیں اور تمہاری آہ و فغان بند نہ ہو"۔
تشریح: خطیب منبر سلونی کی دختر نیک اختر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے یہ تیسرا مضمون نذرانہ عقیدت کے طور پر تحریر کیا جارہا ہے، جس میں واضح کیا جائے گا کہ کوفیوں کے گریہ کا پیش خیمہ منافقت ہے۔ اس گریہ کے ظاہر کو نہ دیکھا جائے، بلکہ اس کی حقیقت اور گہرائی کو دیکھ کر رونے والوں کی حقیقت کو پہچان لینا چاہیے۔ لہذا اس گریہ کی حقیقت کے تعاقب کے لئے ہم اس خطبہ کی ابتداء سے چند قدم پیچھے نظر دوڑاتے ہیں، جس سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے جو ان کے گریہ پر تعجب اور مذمت کی ہے، آپؑ سے پہلے حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے ان کے گریہ کی مذمت کی ہے۔
جب خاندانِ اہل بیت (علیہم السلام) کے قیدیوں کا قافلہ کربلا سے کوفہ میں پہنچا تو اہل کوفہ اکٹھے ہوگئے اور گریہ زاری کرنے لگے حِذْیَم ابن شریک اسدی کا کہنا ہے کہ جب حضرت علی ابن الحسین زین العابدین (علیہما السلام) کو خواتین کے ساتھ کربلا سے لایا گیا جبکہ آپؑ علالت کی کیفیت میں تھے اور انہوں نے دیکھا کہ کوفہ کی عورتیں گریہ کرتے ہوئے گریبان چاک کررہی ہیں اور مرد بھی ان کے ساتھ رو رہے ہیں تو حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے جبکہ علالت کی وجہ سے کمزور تھے، دھیمی آواز سے فرمایا: "إِنَّ هَؤُلَاءِ یَبْکُونَ عَلَیْنَا فَمَنْ قَتَلَنَا غَیْرُهُمْ؟"[2] "یہ ہم پر گریہ کرتے ہیں تو ہمیں کس نے شہید کیا ہے؟!" تو زینب بنت علی ابن ابی طالب (علیہم السلام) نے لوگوں کی طرف خاموش ہوجانے کا اشارہ کیا۔ پھر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ دینا شروع کیا تو خطبہ ارشاد فرماتی ہوئیں ابتدائیہ جملات میں ہی دھوکہ باز اور عہدشکن کوفیوں کی مذمت کی، فرمایا: "أَتَبکُونَ"[3]، "کیا تم گریہ کرتے ہو؟" یہ جملہ ظاہری الفاظ کے مطابق استفہام اور سوال ہے، مگر یہاں پر استفہام اپنے حقیقی معنی سے ہٹ کر تعجب کے لئے استعمال ہوا ہے کیونکہ اس طرح کے رونے میں منافقت پائی جاتی ہے کہ کیوفیوں نے ظلم کرنے کے بعد صرف رو دیا ہے۔ انہوں نے اپنی خاموشی سے یزید کے ظلم و ستم کے لئے راستہ فراہم کردیا۔ عمل کے بغیر پشیمان ہونا اور صرف گریہ کردینا، کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، لہذا ان کے گریہ پر تعجب کرنا چاہیے۔ یہ گریہ قابلِ مذمت ہی ہے جیسے اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں بعض نمازیوں کی مذمت کی ہے: "فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ . الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ[4]"، "تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں"…، اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے: "رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ[5]"، "کتنے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے"۔ بنابریں صرف ظاہری عمل کو نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ عمل اور عامل کو گہری نظر سے دیکھا جائے، معیار قرآن کریم اور اہل بیت (علیہم السلام) کے بتائے گئے موازین اور احکام ہیں کہ جن پر پورا اترنے والا شخص لائق تحسین ہوسکتا ہے، ورنہ ایک پہلو پر عمل کرتے ہوئے دوسرے پہلو کو چھوڑ دینے والا حق کی طرف ہدایت پانے سے زیادہ گمراہی کے گڑھے میں گرنے کے قریب ہوتا ہے۔ کیا حبیب ابن مظاہر (علیہ السلام) جیسے افراد اتنی رکاوٹوں اور خطروں کے باوجود اسی کوفہ سے کربلا حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کی نصرت کے لئے پہنچ نہیں گئے تھے اور انہوں نے اپنی جان دے کر اپنے مضبوط ایمان کا ثبوت پیش کردیا اور کوفیوں نے اتنے ظلم کے بعد صرف رو دیا! پھر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) فرماتی ہیں: "فَلا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لا هَدَأَتِ الرّنّةُ "، " تمہارے آنسو نہ رُکیں اور تمہاری آہ و فغان بند نہ ہو"۔ یہاں پر فعلیہ جملہ، انشائیہ جملہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی اصل میں فرمایا ہے تمہارے آنسو نہیں رکیں گے، یہ خبریہ انداز ہے، جبکہ مراد انشاء اور بددعا ہے یعنی نہ رُکیں۔ "رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ" یعنی آنسو بہنے سے رُک گئے۔[6] اور "رنّة" روتے ہوئے دکھ بھری آواز کو کہا جاتا ہے۔ لفظ "رنّة" شیطان کے لئے نہج البلاغہ میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی چیخ مارنے کے کیے گئے ہیں۔ یعنی یہ لفظ نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی زبانی بھی استعمال ہوا ہے، جہاں آپؑ فرماتے ہیں: "وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ (رَنَة) الشَّيْطَانِ حِينَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا هذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: هذَا الشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ"[7]، "جب آپ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیسی آواز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے[8]
جب حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے اس منافقت بھرے گریہ کو دیکھا تو مصائب سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ان کے لئے بددعا کی کہ اس ظلم کے بعد ان کی گریہ و زاری ختم نہ ہو۔ اہل کوفہ کی زبان اور عمل میں انتہائی تنافی اور ٹکراو پایا جاتا تھا، حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے اس خطبہ کی ابتداء سے پہلے، کوفیوں کے رونے سے پردہ ہٹا کر دلیل کے ساتھ حقیقت ظاہر کردی کہ اگر یہ روتے ہیں تو ہمیں (ہمارے شہداء) کو کس نے شہید کیا ہے؟! اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کے اصحاب کی شہادت میں کوفیوں کا حصہ اور اہم کردار ہے۔ لہذا اس ظلم کے بعد رونا، منافقت ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام)نہج البلاغہ میں منافق لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "لَهُمْ بِكُلِّ طَرِيق صَرِيعٌ، وَإِلَى كُلِّ قَلْب شَفِيعٌ، وَلِكُلِّ شَجْو دُمُوعٌ[9]"، "ہر راہ گذر پر ان کا ایک کشتہ اور ہر دل میں گھر کرنے کا ان کے پاس وسیلہ ہے اور ہر غم کے لئے (ان کی آنکھوں میں مگر مچھ) کے آنسو ہیں"۔[10]
حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے ایک اور خطبہ میں اہل کوفہ کی یوں مذمت کرتے ہیں: "حیف ہے تم پر ، میں تو تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اُکتا گیا ہوں کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیوی زندگی اور عزت کے بدلے ذلّت ہی گوارا ہے ؟ جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کے لئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرداب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پر طاری ہے میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں، تو تم ششدر رہ جاتے ہو معلوم ہوتا ہے  جیسے تمہاری دل و دماغ پر دیوانگی کا اثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے ۔ تم ہمیشہ کے لئے مجھ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہو نہ تم کوئی قوی سہارا ہو کہ تم پر بھروسہ کر کے دشمنوں کی طرف رُخ کیا جائے  اور نہ تم عزت و کامرانی کے وسیلے ہو، کہ تمہاری ضرورت محسوس ہو، تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے  جن کے چرواہے گُم ہو گئے ہوں، اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے، تو دوسری طرف سے تِتر بتر ہو جائیں گے ۔ خدا کی قسم تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے ہو۔ تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے ۔ تمہارے (شہروں کے ) حدود (دن بہ دن ) کم ہوتے جا رہے ہیں مگر تمہیں غصہ نہیں آتا۔ وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو"۔[11]
نتیجہ: اہل کوفہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے زمانے تک ایسی باتیں کرتے رہے جن پر انہوں نے عمل نہ کیا اور مسلسل دھوکہ، عہدشکنی اور ائمہ (علیہم السلام) کی مخالفت کرتے رہے، ان پر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مذمت کا اثر نہ ہوا یہاں تک کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے لہجہ میں بولنے والی باعظمت بیٹی نے اتنے مصائب سہنے کے بعد کوفیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے لئے بددعا کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
[2] احتجاج، طبرسی،2 / 304۔
[3] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
[4] سورہ ماعون، آیات 4 ، 5۔
[5] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج92، ص184، ح19۔
[6] صحاح اللغۃ، جوہری۔
[7] نهج البلاغہ: خطبہ 190۔
[8] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)
[9] نهج البلاغہ: خطبہ 192 ، بحار الأنوار : ج 72 ص 177 ح 6۔
[10] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)
[11] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)، خطبہ 34۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
15 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41