زیادہ کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھانے سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور جنسی خواہشات زیادہ برانگیختہ ہوتی ہیں اور جسم میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں غذا کے متعلق حلال و حرام کی پہچان کرنی چاہئے۔
کم کھانا ظاہری اور باطنی اصلاح کا سبب ہوتا ہے غذا کھانا بدن کی ضروریات کے لئے ضروری ہے تاکہ جسم کے اندر اتنی قوت موجود ہو کہ اس سے انسان اپنی زندگی کے معمولات اور عبادت خداوندی صحیح طریقے سے سرانجام دے سکے۔
لیکن زیادہ کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھانے سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور جنسی خواہشات زیادہ برانگیختہ ہوتی ہیں اور جسم میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں غذا کے متعلق حلال و حرام کی پہچان کرنی چاہیے جتنے بھی انبیاء آئے وہ ہمیشہ نا پا ک، حرام اور شبہ کی غذا سے پر ہیز کرتے تھے جتنے بھی انبیاء مبعوث بہ نبوت ہوئے ان سب نے رزق حلال حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی لئے یہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ جب بھی ہم کھانا کھائیں تو یہ دیکھیں کہ غذا ہمارے پاس شریعی لحاظ سے حلال طریقے سے پہنچی ہے یا نہیں کیونکہ ایک لقمۂ حرام انسان کو عرش سے فرش پر لاگراتا ہے۔
فضل بن ربیع کا بیان ہے کہ ایک دن شریک بن عبد الله بن سنان نخعی خلیفہ مہدی عباسی کے پاس آیا ،خلیفہ نے کہا:" شر یک! تجھے ان تین کاموں میں سے ایک ضرور کرنا ہوگا:(1) منصب قضاوت قبول کرو (۲)۔ یا تو میری اولا د کو تعلیم دو (۳) یا میرے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر ایک مرتبہ کھا نا کھاؤ۔
شریک نے کہا: "خلیفہ سچی بات یہ ہے کہ یہ دونوں کام میرے لئے مشکل ہیں مگر تیسرا کام پہلے دو کاموں کی بہ نسبت کچھ آسان نظر آتا ہے"۔
مہدی نے باور بچی کو بلا کر حکم دیا کہ ہمارے لئے آج کے کھانے میں مغز استخوان اور سفید شکر تیار کرو اور ہاں خیال رکھنا کہ کھانا بہت لذیذ ہونا چاہیے۔
دسترخوان بچھایا گیا شر یک دستر خوان پر بیٹھا اور خلیفہ کے ساتھ بیٹھ کر خوب اچھی طرح سے ڈٹ کر کھایا باورچی خانے کا نگران اس سارے منظر کو دیکھتا رہا اور اس نے مہدی عباسی کے کان میں آہستہ سے کہا: " ليس يفلح الشيخ بعد هذه الا كله ابدا"آپ کو مبارک ہو یہ کھانا کھانے کے بعد کبھی گلوخلاص نہیں ہوگا اور آپ کے دام سے کبھی آزاد نہیں ہوپائے گا۔ فضل بن ربیج کا بیان ہے کہ خدا کی قسم اس دن کھانا کھانے کے بعد وہی شریک بن عبد اللہ بن سنان ، بنی عباس کا حاشیہ نشین بنا اور اس نے منصب قضاوت بھی حاصل کیا اور ان کی اولا د کامعلم بھی بنا۔
ایک دن خلیفہ نے شریک بن عبد الله کے لئے انعام کی ایک چِٹ لکھ کر دی شریک خلیفہ کی پرچی لے کر بیت المال کے خازن کے پاس گیا اور اس سے کہا:"جلدی سے مجھے میری رقم دو"۔
خازن نے کہا: آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو کوئی گندم فروخت کرنا ہے یا آپ نے کہیں کوئی کپاس فروخت کرنا ہے؟
شریک بن عبداللہ نے کہا: "بندۂ خدا !میں نے اس سے بہت قیمتی چیز فروخت کی ہے؛ میں نے اپنا دین و ایمان فروخت کیا ہے۔[پند تاریخ66/4۔ مروّج الذہب3/320۔]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-موسی خسروی، پند تاریخ66/4، ناشر: کتابفروشی اسلامیہ۔
2-علی بن حسین مسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر3/320،ناشر: شرکت انتشارات علمی و فرهنگی۔
Add new comment