خلاصہ: حضرت علی(علیہ السلام) کا لقب امیرالمؤمنین رکھنےکے بارے میں روایت۔
حضرت علی(علیہ السلام) کا سب سے مشھور لقب امیر المو منین ہے، یہ لقب آپ کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے عطا کیا ہے، روایت میں ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کیا ھے کہ آپ نے فرمایا ھے :«يَا أَنَسُ اسْكُبْ لِي وَضُوءً وَ مَاءً فَتَوَضَّأَ وَ صَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ يَا أَنَسُ- أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيَّ الْيَوْمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَ خَاتَمُ الْوَصِيِّينَ وَ إِمَامُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ فَجَاءَ عَلِيٌّ حَتَّى ضَرَبَ الْبَابَ فَقَالَ مَنْ هَذَا يَا أَنَسُ قُلْتُ هَذَا عَلِيٌّ قَالَ افْتَحْ لَهُ فَدَخَلَ. وَ عَنِ ابْنِ مَرْدَوَيْهِ يَرْفَعُهُ إِلَى بُرَيْدَةَ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ص أَنْ نُسَلِّمَ عَلَى عَلِيٍّ بِيَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِين؛ اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ، پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:”اے انس اس دروازے سے جو بھی تمھارے پاس سب سے پھلے آئے وہ امیر المو منین ہے، مسلمانوں کا سردار ہے، قیامت کے دن چمکتے ہوئے چھرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے“، انس کا کھنا ہے:میں یہ فکر کررہا تھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں، اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لائے تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا؟ میں نے عرض کیا: علی(علیہ السلام)۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی(علیہ السلام) سے معانقہ کیا، پھر ان کے چھرے کا پسینہ اپنے چھرے کے پسینہ سے ملایا اور علی(علیہ السلام) کے چھرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چھرے پر ملا اس وقت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: ”یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پھلے کبھی ایسا کرتے نھیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:”میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دا، میری آواز دوسروں تک پھنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میں صحیح راھنمائی کرنے والے ھو“»۔[كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج:۱، ص۳۴۲]۔
*كشف الغمة في معرفة الأئمة، علی ابن عیسی اربلی، ج:۱، ص۳۴۲، بنی ھاشم، تبریز، ۱۳۸۱۔
منبع:http://balaghah.net/old/nahj-htm/urdo/id/maq/9005/008.htm
Add new comment