صبر، امام علی(علیہ السلام) کی  نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام علی(علیہ السلام) نے صبر و استقامت سے کام لینے کے لئے ایسے ایسے اقوال ارشاد فرمائے ہیں کہ اگر آپ کا چاہنے والا ان کو پڑھ لے تو بے شک وہ کبھی بھی صبر کے دامن کو نہیں چھوڑے گا۔
 

صبر، امام علی(علیہ السلام) کی  نظر میں

 صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر، استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے۔ اس وصف کو قائم رکھنا ہی صبر ہے۔
     قرآن مجید میں خداوند متعال  صبر کے بارے میں  اس طرح طرح فرمارہا ہے: «عَسىَ أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَ هُوَ خَيرٌ لَّكُمْ وَ عَسىَ أَن تُحِبُّوا شَیئاً وَ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ وَ أَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[سورۂ بقره، آیت:۲۱۶] اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم برا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ برا ہو خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو»۔
     حضرت علی(علیہ السلام) اسی آیت کے مضمون سے مشابہ  ایک حدیث میں فرمارہے ہیں: «الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ وَ صَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ[۱] صبر دو طریقہ کا ہے: ایک صبر جس کو تم پسند نہیں کرتے اور دوسرا صبر جسے تم پسند کرتے ہو»۔
     حضرت کی نظر میں وہ صبر جسے کوئی پسند نہیں کرتا وہ ایسا صبر ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ امام(علیہ السلام) کی نظر میں صبر سے مراد یہاں پر ایسا صبر ہے کہ جس کو تحمل کرنا اگر چہ بہت سخت ہے لیکن آخر میں اس کے بہت زیادہ فائدے ہیں۔
     اس طرح کے صبر کو امام علی(علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں پیش کرکے دکھایا، امام(علیہ السلام) نے ۲۵سال خانہ نشینی کی زندگی گذار کر ہم کو یہ بتایا کہ اگر بعض وقت حق تمھارے ساتھ بھی ہو لیکن پھر بھی اگر اس پر صبر کرنا ضروری ہے تو اس وقت صبر کے دامن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دو، امام(علیہ السلام) نے ان حالات میں سخت حالات میں صبر کیا اور فرمایا: «فَصَبَرتُ وَ فِی العینِ قذیً وَ فِى الْحَلْقِ شَجاً، اَرى تُراثى نَهْباً. حَتّى مَضَى الاْوَّلُ لِسَبيلِهِ، و فَاَدْلى بِها اِلَى فُلانٍ بَعْدَهُ[۲] میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں(غم و رنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے، میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا، یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت دوسرے کو دے دی»۔
     حضرت نے دوسری جگہ صبر کے بارے  فرمایا: «لصَّبْرُ صَبْرانِ: صَبْرٌ عِنْدَ المُصيبَةِ حَسَنٌ جَميلٌ، وَ أحْسَنُ مِنْ ذلِكَ الصَّبْرُ عِنْدَما حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْكَ[۳] صبر دو طرح کا ہوتا ہے:مصیبت پر صبر کرنا جو کہ ایک بہتر عمل ہے مگر اس سے بھی بہتر صبر یہ ہے کہ حرام چیزوں پر صبر کیا جائے»۔ اور امام(علیہ السلام) ایک اور جگہ صبر کے بارے میں فرمارہے ہیں: «الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَلا إِيمَانَ لِمَنْ لا صَبْرَ لَهُ[۴] صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو مقام انسان کے جسم میں سر کو حاصل ہے»۔
     جس وقت امام علی(علیہ السلام) سے خلافت کو غصب کیا امام(علیہ السلام) نے اس وقت بھی صبر کیا اور جب آپ کو ظاہری خلافت ملی اس وقت بھی آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا۔
نتیجہ:
     امام علی(علیہ السلام) کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے، کسی موقع پر بھی آپ نے نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا، غیظ و غضب اور وقتی معاملات سے طیش میں آکر کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی لئے ضرورت ہے کہ ہم اپنی حیات کے تمام شعبوں میں صبر و تحمل سے کام لیں اور امام(علیہ السلام) کی تأسی کرنے کی کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] نهج البلاغة، محمد بن حسين، ص۴۷۸، هجرت‏، قم‏، ۱۴۱۴ق‏.
[۲] گذشتہ حوالہ، ص۴۸۔
[۳] بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، ج۶۸، ص۷۵، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۴] گذشتہ حوالہ، ج۲، ص۱۱۵۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 58