خلاصہ: اسلام میں رشتہ داروں کی حمایت کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، امام علی(علیہ السلام) نے رشتہ داروں کے سلسلہ میں پہلے خود ہمیں عمل کرکے دکھایا اس کے بعد ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا۔
اسلام نے رشتہ داری اور قرابتداری کے حقوق پورے کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال، قرآن مجید میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «فَہَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَہُمْ[سورۂ محمد، آیت: ۲۲۔۲۳] تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے»۔
ایک شخص کے تمام رشتہ دار، خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے اس کے ذوی الارحام ہیں، جس سے جتنا زیادہ قریبی رشتہ ہوگا اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہوگا اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنی استطاعت کے اعتبار سے نیکی کرنے میں کوئی دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لئے ممکن ہو اس اسے انجام نہ دے۔
امام علی(علیهالسلام) نے اپنے خطبوں، خطوط اور اقوال کے ذریعہ رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، جن میں سے بعض کو یہاں بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم ان پر عمل کریں اور رشتہ داروں کا جو حق ہمارے اوپر ہے اسے اداء کریں۔
امام علی(علیہ السلام) کی وہ شخصیت نہیں ہے جو بغیر عمل کے لوگوں کو کسی چیز کی دعوت دیں، بلکہ آپ پہلے اس چیز پر عمل کرتے تھے اس کے بعد لوگوں کو اس کے انجام دینے کے لئےکہتے تھے۔ جیسا کہ صلہ رحم کے بارے میں خود امام(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «لَنْ يُسْرِعَ أَحَدٌ قَبْلِي إِلَى دَعْوَةِ حَقٍّ وَ صِلَةِ رَحِمٍ[۱]مجھ سے پہلے تبلیغ حق اور صلہ رحم میں کسی نے بھی تیزی سے قدم نہیں بڑھایا»، دوسری جگہ پر آپ ارشاد فرمارہے ہیں: «اے لوگوں، کوئی بھی شخص اگرچہ کہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں سے حمایت کے سلسلہ میں بے نیاز نہیں ہو سکتا، وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے، دیکھو! تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو پورا کرنے کے لئے اپنا پہلو تہی نہ کرو جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے، لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں۔ جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔»[۲]۔
سید رضی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے قبیلہ سے حُسنِ سلوک نہیں کرتا تو اس نے ایک ہی ہاتھ کی منفعت کو روکا، لیکن جب ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی اور ان کی ہمدردی و اعانت کے لئے لاچار و مضطر ہوگا، تو وہ ان کے بہت سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں کی ہمدردریوں اور چارہ سازیوں سے محروم ہو جائے گا۔
حضرت ایک اور جگہ رشتہ داروں کے سلسلہ میں اس طرح فرمارہے ہیں: « اللہ نے جسے مال دیا ہے وہ اس سے عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خوش اسلوبی سے مہمان نوازی کرے»[۳]، اور آپ امام حسن(علیهالسلام) کو ایک طویل وصیت کے درمیان، رشتہ داروں کے بارے میں اس طرح وصیت فرمارہے ہیں: «اپنے قبیلے کا احترام کرو، کہ یہی تمہارے لئے پر اور پرواز کا مرتبہ رکھتے ہیں، اور یہی تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری بازگشت ہے، اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ تم حملہ کرسکتے ہو»[۴]۔
نتیجہ:
امام(علیہ السلام) نے رشتہ داروں کے بارے میں جو اتنی تاکید فرمائی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان پر اپنے رشتہ داروں کا خیال کرنا بہت زیادہ ضروری ہے، صرف اس لئے نہیں کہ وہ آپ کے محتاج ہیں، نہیں اگر چہ آپ کے پاس مال، ثروت اور قدرت ہو پھر بھی آپ ان کی حمایت کے محتاج ہے، اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ میرے پاس تو سب کچھ ہے تو بے شک وہ نقصان اٹھانے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] بحار الانوار ، علامه مجلسى، ج۳۱، ص۳۶۵، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۲] نهج البلاغه، محمد بن حسين الرضى، خطبه: ۲۳، ہجرت، قم، ۱۴۱۴ق۔
[۳] گذشتہ حوالہ، خطبه: ۱۴۲۔
[۴] گذشتہ حوالہ، نامه: ۳۱۔
Add new comment