خلاصہ: امام علی(علیہ السلام) کی سیرت ہمارے لئے بہترین مشعل راہ ہے۔ جس کو اپناکر ہم لوگوں کے درمیان خوشی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔
امام علی(علیہ السلام) کی زندگی کے پہلؤوں میں سے ایک جو اہم اور ہمارے لئے جسے اپنانا بہت ضروری ہے، وہ آپ کی زندگی کا اجتماعی پہلو ہے کہ آپ نے اجتماعی اعتبار سے کس طرح لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی اور آداب اسلامی کی رعایت کس طرح کی۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے، غریبوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ آپ نے روا رکھا۔ اسی بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں امام علی(علیہ السلام) کی اجتماعی زندگی کے بعض پہلؤوں کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم بھی اسے اپنا کر اپنی اجتماعی زندگی کو خوشی کے ساتھ بسر کریں اور امام(علیہ السلام) کے اس قول کے مصداق بننے کی کوشش کریں: «خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ وَ إِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُم[۱] لوگوں کے ساتھ اس طرح رہو کہ اگر تم مرجاؤ تو وہ تم پر روئیں اور اگر تم زندہ ہو تو وہ تم سے ملنے کی خواہش کریں»۔
امام علی(علیہ السلام) کی اجتماعی زندگی کے بعض پہلو حسب ذیل ہیں:
۱. دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ
امام علی(علی السلام) اجتماعی زندگی میں لوگوں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، مثال کے طور پر ایک یھودی شام سے کوفہ کی جانب اپنے گدھے پر گندم کو لاد کر تجارت کے لئے لارہا تھا، کوفہ کے قریب اس کا گدھا کہیں چلا گیا۔ جب امام علی(علیہ السلام) کو اس بات کی خبر ملی تو امام(علیہ السلام) نے اس یھودی کے گدھے کو ڈھونڈ کر اسے واپس لاکر دیا اور اس یھودی کے ساتھ بازار جاکر اس کے گندم کو پیچنے میں اس کی مدد بھی کی۔ جب اس یھودی نے امام(علیہ السلام) کے اس اخلاق کو دیکھا اور اسی وقت اس نے اسلام کو قبول کیا اور اس کے بعد اس نے یہ کہا: «أَشْهَدُ أَنَّكَ عالِمُ هذِهِ الأُمَّةْ، و خَليفَةُ رَسُولِ اللهِ(صلی الله علیه و اله و سلم) عَلَي الْجِنِّ وَ الأِنْس[۲] میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس امت کے عالم ہیں، اور جن اور انس پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جانشین ہیں»۔
۲. نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی
امام علی(علیہ السلام) محتاج اور نیازمند لوگوں کے ساتھ ہمدردی فرماتے تھے، چنانچہ آپ ہی کا فرمان ہے: «ااَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكَهُمْ فِي مَكَارِهِ الدَّهْرِ أَوْ أَكُونَ أُسْوَةً لَهُمْ فِي جُشُوبَةِ الْعَيْشِ فَمَا خُلِقْتُ لِيَشْغَلَنِي أَكْلُ الطَّيِّبَاتِ كَالْبَهِيمَةِ الْمَرْبُوطَةِ هَمُّهَا عَلَفُهَا[۳] کیا میں اس بات پر اپنے نفس کو قانع کرلوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جائے، جبکہ ان کی مشکلات اور تلخیوں میں شریک نہ ہوں، بلکہ میں مشکلات میں ان کے لئے نمونہ بنوں گا، میں لذیذ غذا کھانے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہوں جیسا کہ حیوانات کا پورا ہم و غم چارہ اور گھاس ہوتا ہے»۔
امام علی(علیہ السلام) کی نظر میں انسان کی خلقت کا مقصد، لوگوں کے درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنا ہے، یعنی انسان کو عیش و عشرت کے لئے خلق نھیں کیا گیا ہے۔
۳. حضرت علی(علیہ السلام)کی عدالت
عدالت، انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی دونوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ عدالت یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا، انسان جب اپنی فردی زندگی گزارتا ہے تو اس میں عدالت کو قائم کرنا آسان ہے، لیکن جب اجتاعی زندگی کا مسئلہ آتا ہے تو اجتماع میں عدالت کو برپا کرنا ّآسان نہیں ہے کیونکہ اجتماع میں عدالت کے برپا کرنے پر اگثر لوگ خوش نہیں ہوتے کیونکہ اگر اجتماع میں عدالت کو قائم کیا گیا تو وہ اس عدالت کو برداشت نہیں کرسکتے، امام علی(علیہ السلام) اپنے بھائی کے ساتھ بھی عدالت کے ساتھ پیش آئے اور آپ فرماتے ہیں: خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ میرا بھائی عقیل تنگ دست ہے، اور اُس نے مجھ سے درخواست بھی کی کہ بیت المال سے کچھ وظیفہ بڑھادیں اور میں نے ان کے بچوں کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اُن کے بال اور رنگ متغیر ہوچکے تھے، عقیل نے بار بار اصرار بھی کیا کہ میں عدالت سے ہاتھ اٹھالو، لیکن میں نے لوہے کی گرم سلاخ کو عقیل کی طرف بڑھایا، عقیل چونکے، اے بھائی مجھے آگ سے جلانا چاہتے ہو، میں نے کہا: اے عقیل تم دنیا کی آگ میں جلنا پسند نھیں کرتے لیکن مجھے جہنم کی آگ میں ڈھکیلنا چاہتے ہو جو زیادہ سخت ہے[۴]۔
اسے عدالت پسندی اور عادل کہا جاتا ہے کہ سگے بھائی کو بھی بیت المال سے زیادہ دینا گوارہ نھیں کیا جاتا۔
نتیجہ:
امام علی(علیہ السلام) نے اجتماعی اعتبار سے ہمارے لئے حجت کو تمام کردیا ہے کہ ہم کو اجتماعی اعتبار سے زندگی کس طرح گزارنا چاہئے، اب اگر ہم اپنے آپ کو امام(علیہ السلام) کا غلام کہتے ہیں تو یہ غلامی کا اثر ہمارے کردار سے ظاہر ہونا چاہئے،فقط زبان سے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] نهج البلاغة(للصبحي صالح)، محمد بن حسين الرضى، ص۴۷۰، ہجرت، قم، ۱۴۱۴ق۔
[۲] اثبات الوصية، على بن حسين مسعودى، ص۱۵۳، انصاریان، ایران، قم، تیسری چاپ، ۱۴۲۶ق۔
[۳] بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، ج۴۰، ص۳۴۱، دار إحياء التراث العربي، بيروت. دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۴] گذشتہ حوالہ، ج۷۲، ص۳۵۹۔
Add new comment