تیسویں رمضان کی دعا کی مختصر شرح

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ عبادتوں کی اہمیت اس وقت ہے جب وہ خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہوں اور عبادت کس طرح مقبول واقع ہوتی ہے ہم کو ائمہ(علیہم السلام) کی سیرت کو دیکھنا ہوگا۔

تیسویں رمضان کی دعا کی مختصر شرح

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیامى فیهِ بِالشُّكْرِ وَ الْقَبُولِ عَلى ما تَرْضاهُ وَ یَرْضاهُ الرَّسُولُ مُحْكَمَةً فُرُوعُه بِاْلاُصُولِ بِحَقِّ سَیِّدِنا مُحّمَدٍ وَ الِهِ الطَّاهِرینَ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمینَ.[۱]
خدایا اس دن میں میرے روزہ کو جزائے خیر کے ساتھ  اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے، جو تیرا پسندیدہ، تیرے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا پسندیدہ ہو اور اس کے فروع کو اصول کے ساتھ مستحکم کر، بحق سید و سردار محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپکی پاک آل، اور حمد خدا کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے۔

     کسی بھی عبادت کی اہمیت اسی وقت ہوگی جب وہ خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہو، جب تک ہماری نمازیں، روزے قبول نہ ہوں ان کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہے، اعمال کی قبولیت کا دار و مدار انسان کی نیت اور اخلاص کے اوپر ہے۔ خدا کی بارگاہ میں ایسی عبادت قبول ہوتی ہے جو اسکی نافرمانی کے ساتھ نہ ہو، جس نے روزہ رکھنے کے نیت سے کھانے اور پینے کو ترک کیا ہو لیکن اگر روزہ کی حالت میں کسی کی غیبت کرے تو اسکا روزہ آسانی سے قبول ہونے والا نہیں ہے، جیسا کہ امام رضا(علیہ السلام) نے فرمایا: « اجْتَنِبُوا الْغِيبَةَ غِيبَةَ الْمُؤْمِنِ‏ وَ احْذَرُوا النَّمِيمَةَ فَإِنَّهُمَا يُفَطِّرَانِ‏ الصَّائِم‏[۲] مؤمن کی غیبت اور چغل خوری سے پرہیز کرو کیونکہ یہ دونوں روزہ کو باطل کردیتی ہیں»۔
     اسی لئے خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہماری زبانوں کو گناہ سے محفوظ رکھے تاکہ ہمارے روزوں سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہوجائے۔

     انسان کے لئے سب سے بڑی دولت رضائے الٰہی کا حاصل کرنا ہے، جس کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[سورۂ توبہ، آیت:۷۲] اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے»، انسان اپنی معرفت کے اعتبار سے اللہ کی رضایت کو حاصل کرتا ہے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور معصومین(علیہم السلام) خدا کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے بندے ہیں، اور ان لوگوں نے اپنی معرفت کے اعتبار سے خدا کی اطاعت کی۔ ایسی اطاعت کی کہ ہر حال میں خدا کی مرضی کو مدّنظر رکھا، اسی لئے خدا نے ان سے محبت اور ان کی رضا حاصل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ ان کی رضا کے ذریعہ ہم اللہ کی رضا کو حاصل کرسکتے ہیں، جیسا کہ ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں: « وَ الأْدِّلّاءِ عَلى مَرْضاة اللّهِ‏[۳] اور وہ لوگ اللہ کی رضا کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں»، امام زین العابدین(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: « يَقُولُ لَهُمْ تَبَارَكَ‏ وَ تَعَالَى‏ رِضَايَ‏ عَنْكُمْ وَ مَحَبَّتِي لَكُمْ خَيْرٌ وَ أَعْظَمُ مِمَّا أَنْتُمْ فِيه‏[۴]  خدا کہہ رہا ہے کہ تم لوگ جن نعمتوں میں ہو، ان سب سے بہتر، میری رضا اور محبت کو حاصل کرنا ہے»،
     معصومین(علیہم السلام) ہماری راہنمائی کرنے والے ہیں کہ ہم خدا کی رضایت کو کس طرح حاصل کرسکتے ہیں۔
     ائمہ(علیہم السلام) دو طریقہ سے خد ا کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہماری راہنمائی کرتے ہیں:
۱۔ ائمہ(علیہم السلام) نے اپنے کردار کے ذریعہ ہم کو بتایا کہ خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی جان کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینا چاہئے، جیسا کہ امام امام حسین(علیہ السلام) جب اپنی جان کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنے کے لئے اپنے وطن سے نکلتے ہیں تو اس وقت اپنے جد کی قبر مبارک پر آکر دعا مانگتے ہیں: « أن أسألك يا ذا الجلال و الإكرام بحق القبر و من فيه إلا اخترت لي ما هو لك رضى و لرسولك‏ رضى‏[۵] اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس قبر کا واسطہ دے کر اور جو اس کے اندر آرام کر رہے ہیں اسکا واسطہ دے کر، جس چیز میں تیری اور تیرے رسول کی رضا ہے اسی کو میرے لئے مقدر فرما».
     اماموں کے زندگی کے ہر موڑ پر ہم کو ان کا خدا سے راضی ہونا نظر آئیگا، انھوں نے اپنی پوری زندگی میں ہم کو بتایا کے خدا کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا چاہئے۔
۲۔ اپنے کلام کے ذریعہ ہم کو بتایا کہ خدا کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا چاہئے، جیسا کہ امام علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « كن‏ راضيا تكن‏ مرضيّا[۶] قضاء الھی پر راضی ہوجاؤ، اللہ تم سے راضی ہو جائے گا»۔
     اسی لئے ہم ماہ مبارک رمضان کے آخری دن دعا مانگ رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیامى فیهِ بِالشُّكْرِ وَ الْقَبُولِ عَلى ما تَرْضاهُ وَ یَرْضاهُ الرَّسُولُ مُحْكَمَةً فُرُوعُه بِاْلاُصُولِ بِحَقِّ سَیِّدِنا مُحّمَدٍ وَ الِهِ الطَّاهِرینَ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمینَ؛ خدایا اس دن میں میرے روزہ کو جزائے خیر کے ساتھ  اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے، جو تیرا پسندیدہ تیرے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا پسندیدہ ہو، اور اس کے فروع کو اصول کے ساتھ مستحکم کر، بحق سید و سردار محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپکی پاک آل، اور حمد خدا کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى،  بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۷۲، ص۲۵۷.
[۳]۔ محمدتقى بن مقصودعلى مجلسى، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، مؤسسه فرهنگى اسلامى كوشانبور، ۱۴۰۶ ق، ج۵، ص۴۶۵.
[۴]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۸، ص۱۴۱.
[۵]۔ محمد باقر مجلسى،  بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۴۴، ص۳۲۸.
[۶]۔ عبد الواحد بن محمد تميمى آمدى،  غرر الحكم و درر الكلم، دار الكتاب الإسلامي، ۱۴۱۰ ق، ص۵۲۸.

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 42