خلاصہ: اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے لیکن ہم کو بھی اس کی رحمت کے دائرہ میں آنے کے لئے اپنےدل کو پاک اور صاف رکھنا چاہئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ غَشِّنى فیهِ بِالرَّحْمَةِ وَ ارْزُقْنى فیهِ التَّوْفیقَ وَ الْعِصْمَةَ وَ طَهِّرْ قَلْبى مِنْ غَیاهِبِ التُّهَمَةِ یا رَحیماً بِعِبادِهِ الْمُؤْمِنینَ.[۱]
خدایا اس میں مجھ کو رحمت سے چھپا دے، اور مجھ کو توفیق اور حفاظت عطا کر، اور میرے دل کو پاک کر دے شکوک کی تاریکیوں سے، اے مومن بندوں پر رحم کرنے والے۔
اگر خدا کسی کو نعمت عطا کرنے کا ارادہ کر لے تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اسے اس کام سے روک سکے اور اس کے بر خلاف اگر خدا کسی کو نعمت نہ دینے کا اردہ کرلے تو ساری دنیا ملکر بھی اس کو نعمت نہیں دے سکتی: « مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ[سورۂ فاطر، آیت:۲] اللہ نے جب لوگوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے، اس کو کوئی بھی بند نہیں کرسکتا اور جن کے لئے بند کردے اس پر کوئی کھولنے والا نہیں ہے وہ ہر شیٔ پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے»۔
لیکن ہم جب تک اپنے آپ کو اس کی رحمت کے لائق نہ بنالیں، خدا ہم پر رحمت نہیں کرتا، خدا گناہ کی سزا جس کو چاہے دیتا ہے لیکن اسکی رحمت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس میں شامل ہے: « قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاء وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ[سورۂ اعراف، آیت:۱۵۶] ارشاد ہوا کہ میرا عذاب جسے میں چاہوں گا اس تک پہنچے گا اور میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے جسے میں عنقریب ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو خوف خدا رکھنے والے زکوۃ ادا کرنے والے اور ہماری نشانیوں پر ایمان لانے والے ہیں»۔ اس آیت کے آخری حصہ میں خدا نے واضح کردیا ہے کہ اس کی رحمت کی بارش ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہیں، امام کاظم(علیہ السلام) بھی اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ خدا کی رحمت کے مستحق کون قرار پاتے ہیں: « إِنَ أَهْلَ الْأَرْضِ لَمَرْحُومُونَ مَا تَحَابُّوا وَ أَدَّوُا الْأَمَانَةَ وَ عَمِلُوا بِالْحَقِّ[۲] یقینا اہل زمین جب تک ایک دوسرے سے محبت کرینگے اور امانت اداء کرینگے اور حق پر عمل کرینگے، خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہے گی».
فقط نماز، روزہ اور فردی عبادت خدا کی رحمت کا سبب نہیں بنتی بلکہ معاشرے میں اخلاق موجود ہونا چاہئے تاکہ خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہوں، جب تک معاشرے میں بداخلاقی، جھوٹ، تھمت، امانت میں خیانت، قدرت سے محبت وغیرہ ایسی چیزیں موجود رہیں گی، خدا ان پر رحمت کو نازل کرنے کے لئے پرہیز کریگا۔
صرف رحمت کو جان لینا کے وہ کیا ہے اور کس چیز کی وجہ سے خدا اسے نازل کرتا ہے، خدا کی رحمت نازل نہیں ہوتی بلکہ ان چیزوں کو جب تک اپنی زندگی میں شامل نہیں کرینگے اس وقت تک خدا کی رحمت نازل ہونے والی نہیں ہے، اسی لئے خدا سے دعا مانگ رہے ہیں کہ ہمیں ان چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے: « َللَّهُمَّ غَشِّنى فیهِ بِالرَّحْمَةِ؛ خدایا اس میں مجھ کو رحمت سے چھپا دے»۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا کی رحمت ہمارے شامل حال ہوجائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا سے عبادتوں کو انجام دینے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق طلب کریں، اپنی قدرت اور توانائی پر تکیہ نہ کریں بلکہ خدا سے ان اعمال کی بجاآوری کے لئے توفیق کو طلب کریں کیونکہ ہماری جتنی بھی قدرت اور توانائی ہے وہ اسی کی عطا کی ہوئی ہے، امام جواد(علیہ السلام) اس کے بارے میں فرما رہے ہیں: « الثِّقَةُ بِاللَّهِ تَعَالَى ثَمَنٌ لِكُلِ غَالٍ وَ سُلَّمٌ إِلَى كُلِ عَالٍ[۳] خدا پر بھروسہ کرنا ہر قیمتی چیز کی قیمت اور زینہ ہے ہر بلندی کے لئے».
اسی لئے ہم آج خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ ارْزُقْنى فیهِ التَّوْفیقَ وَ الْعِصْمَةَ؛ اور مجھ کو توفیق اور حفاظت عطا کر»۔
اب جبکہ اللہ کی مہمانی کا مہینہ ختم ہورہا ہے تو خداوند عالم سے طلب کررہے ہیں کہ کسی چیز کو سوائے خدا کے ہمارے دل میں باقی نہ رکھے، یہاں تک کہ شک اور شبھہ کو بھی ہمارے دل سے نکال دے، امام حسن(علیہ السلام) شک اور شبھہ کے بارے میں فرما رہے ہیں: « أَسْلَمُ الْقُلُوبِ مَا طَهُرَ مِنَ الشُّبُهَاتِ[۴] سب سے سالم قلب وہ ہے جو شبھات سے بھی پاک ہو»، کیونکہ قیامت کے دن انسان کو کوئی بھی چیز فائدہ پہونچانے والی نہیں ہے سوائے سالم اور پاک دل کے جس کے بارے میں خود خدا ارشاد فرما رہا ہے: « يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ[سورۂ شعراء، آیت:۸۸ و۸۹] جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو».
اسی لئے ہم خدا سے دعا گو ہیں: « وَ طَهِّرْ قَلْبى مِنْ غَیاهِبِ التُّهَمَةِ یا رَحیماً بِعِبادِهِ الْمُؤْمِنینَ؛ اور میرے دل کو پاک کر دے شکوک کی تاریکیوں سے، اے مومن بندوں پر رحم کرنے والے »۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق،ج ۷۲، ص۱۱۷.
[۳]۔ بحار الأنوار, ج۷۵، ص۳۶۴.
[۴]۔ بحار الأنوار، ج۷۵، ص ۱۰۹.
Add new comment