خلاصہ: مستحب نمازیں واجب نمازوں کی کمیوں کو پورا کرتی ییں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ وَفِّرْ حَظّى فیهِ مِنَ النَّوافِلِ وَ اََكِرْمنى فیهِ بِاِحْضارِ الْمَسآئِلِ وَ قَرِّبْ فیهِ وَ سیَلتى اِلَیْكَ مِنْ بَیْنِ الْوَسائِلِ یا مَنْ لایَشْغَلُهِ الْحاحُ الْمُلِحّینَ. [۱]
خدایا اس میں مستحبات میں میرا زیادہ حصہ عطا کر، اور مجھ کو مکرم بنا مسائل کے حاضر کرنے کے ذریعہ، اور میرے وسیلہ کو اپنی طرف کے وسائل میں قریب کر، اے وہ خدا جس کو لجاجت کرنے والوں کی لجاجت مشغول نہیں کرتی ہے۔
انسان کے کمال تک پہونچنےکی ابتداء، نوافل اور مستحب چیزوں کی پاندی ہے، جسکی وجہ سے انسان جلد از جلد خدا کی قربت کو حاصل کرسکتا ہے کیونکہ یہ نمازیں، واجب نمازوں میں جو کمیاں رہ جاتی ہیں ’’حضور قلب اور نماز میں توجہ کے کم ہونے کے اعتبار سے‘‘ انہیں پورا کرتی ہیں، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرمارتے ہیں: « كُلُّ سَهْوٍ فِي الصَّلَاةِ يُطْرَحُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُتِمُّ بِالنَّوَافِل[۲]نماز میں جو بھی بھول چوک ہوتی ہے، اللہ تعالی اس کو نوافل کے ذریعہ پورا کرتا ہے»۔
مستحب نمازیں، بہت زیادہ ہیں اور انہیں نوافل بھی کہتے ہیں۔ مستحب نمازوں میں دن رات کی نافلہ نمازیں پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور وہ روز جمعہ کے علاوہ ٣٤،رکعتیں ہیں۔ جن میں سے ٨،رکعت نافلہ ظہر، ٨،رکعت نافلہ عصر، ٤،رکعت نافلہ مغرب، ٢،رکعت نافلہ عشا، ١١،رکعت نافلہ شب اور دو رکعت نافلہ صبح ہیں، ان سب میں سب سے زیادہ فضیلت نماز شب کو حاصل ہے جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرما رہے ہیں: « إِذَا قَامَ الْعَبْدُ مِنْ لَذِيذِ مَضْجعِهِ وَ النُّعَاسُ فِي عَيْنَيْهِ لِيُرْضِيَ رَبَّهُ جَلَّ وَ عَزَّ بِصَلَاةِ لَيْلِهِ بَاهَى اللَّهُ بِهِ مَلَائِكَتَهُ فَقَالَ أَمَا تَرَوْنَ عَبْدِي هَذَا قَدْ قَامَ مِنْ لَذِيذِ مَضْجَعِهِ إِلَى صَلَاةٍ لَمْ أَفْرِضْهَا عَلَيْهِ اشْهَدُوا أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَه[۳] جب بندہ کی آنکھوں میں نیند ہوتی ہے اور وہ اپنی پسندیدہ نیند کو چھوڑ کر اپنے بستر سے خدا کو راضی کرنے کے لئے نماز شب پڑھنے کے لئے اٹھتا ہے تو اللہ اپنے ملائکہ پر فخر اور مباہات کرتا ہے، اور کہتا ہے کیا تم لوگ میرے بندے کو نہیں دیکھ رہے ہو جو اپنے پسندیدہ بستر کو چھوڑ کر اس نماز کے لئے کھڑا ہوا ہے جو میں نے اس پر فرض قرار نہیں دی، تم لوگ گواہ رہنا کہ یقینا میں نے اسے بخش دیا ہے»۔
اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ وَفِّرْ حَظّى فیهِ مِنَ النَّوافِلِ؛ خدایا اس میں مستحبات میں میرا زیادہ حصہ عطا کر»۔
انسان کی کرامت اس میں ہے کہ جس چیز کو وہ چاہتا ہے اسے حاصل کرتا ہے، انسان کے ’’مسائل‘‘ اگر پورے نہیں ہوئے اگر اس کی خلقت کا مقصد پورا نہ ہوا تو اس وقت انسان کے اندر ایک قسم کی سستی پیدا ہوجاتی ہے، اسی لئے ہم کو جو چیز چاہئے اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ اسے حاصل کرسکیں، اپنے مقصد تک پہونچنےکے لئے ’’وسیلہ‘‘ بھی ضروری ہے لیکن وسیلہ کو اپنانا چاہئے جو ہم کو خدا سے نزدیک کرے،کیونکہ ہمارا مقصد خدا کی قربت کو حاصل کرنا ہے، اگر ہمیں خدا کی قربت حاصل کرنی ہے تو اسکا وسیلہ نیک اعمال کی بجاآور اور تقوے کا اختیار کرنا اور صراط مستقیم پر قائم رہنا ہے۔
اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ اََكِرْمنى فیهِ بِاِحْضارِ الْمَسآئِلِ وَ قَرِّبْ فیهِ وَ سیَلتى اِلَیْكَ مِنْ بَیْنِ الْوَسائِلِ؛ اور مجھ کو مکرم بنا مسائل کے حاضر کرنے کے ذریعہ، اور میرے وسیلہ کو اپنی طرف کے وسائل میں قریب کر»۔
خدا سب کی دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول بھی کرتا ہے، یہ ہمارا عیب ہے کہ اگر ایک کام کو انجام دیتے ہیں تو دوسرے کام کو انجام نہیں دے سکتے، ہماری توجہ صرف ایک جانب رہتی ہے، ایک طرف متوجہ ہوتے ہیں تو دسری جانب سے غافل ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم محدود ہیں، لیکن خدا کی ذات محدود نہیں ہے اسی لئے کوئی بھی کام اسے مشغول نہیں کرتا، امام علی(علیہ السلام) سے کسی نے پوچھا: خدا قیامت میں تمام بندوں کا محاسبہ کس طرح کریگا؟ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: جس طرح دنیا میں ان لوگوں کو رزق دیتا ہے، بعض کو رزق دینے سے، دوسرے لوگ محروم نہیں رہ جاتے۔[۴]
اگر ہم خدا سے طلب کرینگے تو یقینا وہ ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ عطا کرنے والا ہے، اور کوئی بھی چیز اس کے عطاء کرنے میں مانع نہیں ہوتی کیونکہ: « یا مَنْ لایَشْغَلُهِ الْحاحُ الْمُلِحّینَ؛ اے وہ خدا جس کو لجاجت کرنے والوں کی لجاجت مشغول نہیں کرتی ہے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق،ج۳، ص۲۶۸.
[۳]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۸۴،ص۱۵۶.
[۴]۔ «سُئِلَ علی(علیہ السلام) كَيْفَ يُحَاسِبُ اللَّهُ الْخَلْقَ عَلَى كَثْرَتِهِمْ فَقَالَ (علیہ السلام) كَمَا يَرْزُقُهُمْ عَلَى كَثْرَتِهِم»۔ محمد بن حسين شريف الرضى، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، هجرت، ۱۴۱۴ ق، ص۵۲۸.
Add new comment