خلاصہ: جو شخص غیبت کرتا ہے، قیامت کے دن اسکے نامۂ اعمال میں سے تمام نیکیوں کو محو کردیاجائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
َاللَّهُمَّ اجْعَلْ سَعْیى فیهِ مَشْكُوراً وَ ذَنْبى فیهِ مَغْفُوراً وَ عَمَلى فیهِ مَقْبُولاً وَ عَیْبى فیهِ مَسْتُوراً یا اَسْمَعَ السَّامِعینَ.[۱]
خدایا میری کوشش کو اس میں مقبول بنا دے، اور میرے گناہوں کو بخش دے اور عمل کو مقبول کردے، اور میرے عیب کو پوشیدہ کر دے، اے سب سے زیادہ سننے والے۔
انسان ماہ مبارک رمضان میں زحمت کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، بھوک اور پیاس کو تحمل کرتا ہے، کھانہ نہیں کھاتا، پانی نہیں پیتا، کم سوتا ہے، اگر خدا کی بارگاہ میں یہ سب قبول نہ ہوں تو اسکی سب زحمتیں بیکار اور رایگاں چلی جائینگی، اس لئے ہم خدا سے دعا کر رہے ہیں کہ ہماری عبادتوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا اپنی اتنی رحمت کے باوجود ہماری ان زحمتوں کو کیوں قبول نہیں کریگا، تو اسکے جواب میں یہ کہا جائیگا کہ خدا نے ہی کہا ہے اگر تم اپنے اعمال کو بچانا چاہتے ہو تو بعض کاموں سے تمھہیں بچنا ہوگا، جن میں سے ایک مثال کے طور پر غیبت کرنا ہے، غیبت کے بارے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روایت ہے : « يُؤْتَى بِأَحَدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَ يُدْفَعُ إِلَيْهِ كِتَابُهُ فَلَا يَرَى حَسَنَاتِهِ فَيَقُولُ إِلَهِي لَيْسَ هَذَا كِتَابِي فَإِنِّي لَا أَرَى فِيهَا طَاعَتِي فَيُقَالُ لَهُ إِنَّ رَبَّكَ لَا يَضِلُّ وَ لَا يَنْسَى ذَهَبَ عَمَلُكَ بِاغْتِيَابِ النَّاسِ ثُمَّ يُؤْتَى بِآخَرَ وَ يُدْفَعُ إِلَيْهِ كِتَابُهُ فَيَرَى فِيهَا طَاعَاتٍ كَثِيرَةً فَيَقُولُ إِلَهِي مَا هَذَا كِتَابِي فَإِنِّي مَا عَمِلْتُ هَذِهِ الطَّاعَاتِ فَيُقَالُ لِأَنَّ فُلَاناً اغْتَابَكَ فَدُفِعَتْ حَسَنَاتُهُ إِلَيْكَ[۲] قیامت کے دن تم میں سے کسی ایک کو محشر کے میدان میں حساب اور کتاب کے لئےحاضر کیا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا جب وہ اس کو دیکھے گا تو اس نے جو نیک کام انجام دئے ہیں وہ اس میں لکھے ہوئے نہ ہونگے، وہ عرض کریگا: اے پروردگار! یہ نامہ اعمال میرا نہیں ہے کیونکہ میں نے جو اعمال انجام دئے ہیں وہ اس میں نہیں ہیں۔ اس سے کہا جائےگا تیرا پروردگار نہ گمراہ ہے اور نہ بھولتا ہے، یہ اس شخص کا نامہ اعمال ہے جس کی تو نے غیبت کی تھی، اس کے بعد دوسرے شخص کو لایا جائے گا اور اسکا نامہ اعمال اس شخص کے ہاتھ میں دیدیا جائے گا، جب وہ اپنے نامہ اعمال کو دیکھے گا تو اس میں بہت زیادہ اطاعتیں لکھے ہوئی ہونگی، وہ کہے گا پروردگار یہ میرا نامہ اعمال نہیں ہے، جو نیک کام یہاں لکھے ہوئے ہیں، میں نے دنیا میں انہیں انجام نہیں دیا ہے، اس سے کہا جائے گا کیونکہ اس شخص نے تیری غیبت کی تھی اس لئے اس کے نیک اعمال تیرے نامہ اعمال میں لکھ دئے گئے ہیں».
ایسے شخص کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا شخص ہے: « قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً[سورۂ حشر، آیت:۱۰۳و۱۰۴]پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں»۔
اسی لئے آج کے دن خداوند عالم سے دعا مانگ رہے ہیں کہ ہم کو ان لوگوں میں قرار نہ دے جن کے نیک اعمال ان کے نامہ اعمال میں لکھے نہیں جائیںگے: « َاللَّهُمَّ اجْعَلْ سَعْیى فیهِ مَشْكُوراً وَ ذَنْبى فیهِ مَغْفُوراً وَ عَمَلى فیهِ مَقْبُولاً؛ خدایا میری کوشش کو اس میں مقبول بنا دے، اور میرے گناہوں کو بخش دے اور عمل کو مقبول کر دے»۔
خدا، خود ستارالعیوب ہے، وہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کے عیوب کو بیان کیا جائے اور لوگوں کے عیب فاش کئے جائیں اور ان کی عزت و آبرو برباد کی جائے، ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان کے عام طور پر کچھ نہ کچھ کمزور اور مخفی پہلو ہوتے ہیں، اگر یہ عیب ظاہر ہو جائیں تو پورے معاشرے میں غیر اعتمادی کی ایک ایسی فضا پیدا ہوجائے گی کہ لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرینگے۔
اسی لئے آج کے دن ہم خداوند متعال سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ عَیْبى فیهِ مَسْتُوراً یا اَسْمَعَ السَّامِعینَ؛ اور میرے عیب کو پوشیدہ کر دے، اے سب سے زیادہ سننے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۷۲، ص۲۵۹.
Add new comment