حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: شھادت امام حسن علیہ السلام ۲۸ صفر کو ہوئی،معاویہ نے ۵ بار آپ کو زہر دلوایا۔۔۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

معاویہ آپ کے آزار کے درپئے تھا اُس نے باربار کوشش کی کسی طرح  امام حسن علیہ السلام   اس دارفانی سے ملک جاودانی کو روانہ ہوجائیں اور یزید کی خلافت کے لیے زمین ہموار کرنا بھی ایک اھم مقصد تھا ، چنانچہ اس نے ۵ بار آپ کو زہر دلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کا زہر منگوا کر محمد ابن اشعث یا مروان کے ذریعہ سے جعدہ  بنت اشعث  کے پاس معاویہ نے بھیجا، جعدہ بنت اشعث امام حسن کی زوجہ تھی اور معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ جب امام حسن شہید ہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیرا عقد اپنے بیٹے  یزید کے ساتھ کردیں گے.1
تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھر تشر یف لے گئے اس نے کہا کہ مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتو حاضر کروں آپ چونکہ خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایا لے آو ،وہ زہرآلود خرمے لے کرآئی اور پہچانے ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا اور وہ دانے کھا لئے جن میں زہر تھا اس کے بعد امام حسین علیہ السلام  کے گھر تشریف لائے اورساری رات تڑپ کر بسرکی، صبح کو روضہ رسول پرجا کر دعا مانگی اور صحتیاب ہوئے.

معاویہ کی قاتلانہ سازش یہ تھی کہ اس نے یہ طے کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن علیہ السلام  کو قتل کر دیا جائے اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لئے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن بن علی کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا ۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کردوں گا ۔ ان چار کا نام تھا ۔١۔ عمر و بن حریث۔٢۔ اشعث بن قیس ۔٣۔ حجر بن الحارث ۔٤۔ شبث بن ربعی ۔
معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا انہیں حاصل کرنے کے لئے ان سب نے حامی بھر لی ۔
معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طریقے پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے ۔
امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ مکمل طور سے نگراں رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے اندر زرہ پہنتے تھے یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے ،آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا ۔2

اور  روایت  کے مطابق   معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا،امام حسن روزے سے تھے ،ہوا گرم تھی ، افطار کے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :
''تو نے مجھے قتل کیا ، خدا تجھے قتل کرے ، خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہو گی ، خدا تجھے ذلیل کرے گا ۔''
دو روز کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی ۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا اسے پورا نہ کیا ،یزید سے اس کی شادی نہیں کی ،اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی،
اور اس سے کئی بچے ہوئے،جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان ملاقات ہوتی تو انہیں کہا جاتا ''یا بنی مسمّة الازواج '' ( اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں )۔3

جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا :میری یزید سے شادی کردو۔ اس نے جواب دیا :''اذھبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید'' دفع ہو جا ! تیری جیسی عورت جب حسن بن علی سے وفا نہ کر سکی تو میرے بیٹے یزید سے کیا  وفا کرے گی ۔4

آخر میں ایک حدیث کہ جس میں امام حسن علیہ السلام کی شھادت کا ذکر ہے:

حضرت صادق آل محمد علیھم السلام کا ارشاد ہے کہ جس وقت امام حسین اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے ۔ امام حسن نے پوچھا بھائی کیوں روتے ہو ؟
امام حسین علیہ السلام نے کہا : کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں ،لوگوں نے مجھے بے بھائی کا کر دیا ۔
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا : میرے بھائی ! اگر چہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ،دواوغیرہ )چاہوں یہاں مہیّا ہے ۔ بھائی ، بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ، لیکن
'لا یوم کیومک یا ابا عبداللّہ .''
اے ابا عبد اللہ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر تیس ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی ہیں ۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ،تمہارا مال لوٹ لیں گے، اس وقت بنی امیہ پر خدا کی لعنت روا ہو گی ۔
میرے بھائی تمہاری شہادت دلگداز ہے کہ
''و یبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحش فی الفلوات و الحیتان فی البحار ''تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گی ۔ (امالی صدوق مجلس ٣٠، مقتل المقرم ،ص٢٤٠)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع

1۔  تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ، ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴ ۔

2۔  بحار الانوار ،ج٤٤،ص33

3۔  ارشاد شیخ مفید،ج٢ ص١٣

4۔ بحار الانوار ،ج٤٤،ص ١٤٨و١٥٤

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 34