تاریخ
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کی دھوکہ بازی اور عہدشکنی کی یاددہانی کی، فرمایا: "اے اہل کوفہ، اے دھوکہ دینے والو اور عہد توڑ دینے والو "
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کے منافقت بھرے گریہ کی مذمت کی اور ان کے گریہ کے نہ رک پانے کے لئے بددعا کی۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہوئے ان کو اس عورت سے تشبیہ دے رہی ہیں جس عورت کے مذمت آمیز کام جیسا کام کرنے سے منع کیا ہے، اس سے قرآن کریم یہ درس دینا چاہتا ہے کہ بیعت اور عہد کو مت توڑو، اور آنحضرتؑ اس تشبیہ کے ذریعہ یہ سمجھانا چاہ رہی ہیں کہ تم اہل کوفہ عہد شکن ہو۔
خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفہ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کوفیوں کی چار بری صفات بیان کرکے ان کی مذمت کررہی ہیں جن پر ہمیں چاہیے کہ غور کریں، کہیں حالات کے بدل جانے سے یہ صفات ہمارے اندر جنم نہ لے لیں، کیونکہ اہل کوفہ کی ان صفات کی بنیاد پر مذمت ہوئی ہے تو جب یہ صفات یقینا قابل مذمت ہیں تو جس شخص میں یہ صفات آجائیں وہ شخص بھی یقیناً لائق مذمت بوگا۔
خلاصہ: جناب عبد اللہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد تھے، آپ اپنے قبیلہ میں بہت زیادہ مشھور تھے، آپ حضرت ابراھیم(علیہ السلام) کے دین پر باقی تھے۔
خلاصہ: حضرت زھرا(سلام اللہ علیہا) کے دروازے پر جو آگ لگائی گئی اس بات کا تذکرہ صرف شیعہ تاریخ دانوں کی کتابوں میں ہی نہیں بلکہ اہل سنت نے بھی اس بات کو نقل کیا ہے۔
اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔-
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔لیکن مغربی دنیا نے اسے ایک منفی پہلو سے لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقی اسلام سے دور ہوں اور مسلمانوں سے متنفر ہوں مقالہ ھذا میں جہاد کی حقیقی تصویر کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس امید کے ساتھ کے لوگوں تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچیں-
خلاصہ: شھزادی زہرا(سلام اللہ علیہا) کی وہ شخصیت ہے جس کی تعریف تمام معصومین(علیہم السلام) نے کی اور حضرت علی(علیہ السلام) نے آپ کی شخصیت کو بہت اچھی طرح سے بیان فرمایا ہے۔
خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو جب خبر ملی کہ آپؑ کے فدک کے غصب کرنے پر خلیفہ نے پختہ ارادہ کرلیا ہے تو آپ مکمل حجاب کے ساتھ خواتین کے حلقہ میں چلتی ہوئیں مسجد میں داخل ہوئیں اور آپؑ اور لوگوں کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا، آپ نے ایسا دکھ بھرا گریہ کیا کہ لوگ بھی رو پڑے، پھر آپؑ نے پس پردہ خطبہ دینا شروع کیا ہی تھا کہ لوگ دوبارہ رو پڑے۔ جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے دوبارہ اپنا کلام شروع کیا۔