حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے دروازہ پر آگ اہل سنت کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت زھرا(سلام اللہ علیہا) کے دروازے پر جو آگ لگائی گئی اس بات کا تذکرہ صرف شیعہ تاریخ دانوں کی کتابوں میں ہی نہیں بلکہ اہل سنت نے بھی اس بات کو نقل کیا ہے۔

حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے دروازہ پر آگ اہل سنت کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     محدّثین لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت: «فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ[سورۂ نور، آیت۳۶] ) یہ چراغ ان گھروں میں ہے جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے»، نازل ہوئی اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مسجد میں اس آیت کی تلاوت فرمائی، اسی وقت ایک شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول وہ گھر کس کے ہیں جس کی اتنی اہمیت بتائی جارہی ہے؟
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: پیغمبروں کے گھر!
اسی وقت ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انھوں نے حضرت علی(علیہ السلام) اور شھزادی زہرا(سلام اللہ علیہا) کے گھر کے طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: کیا یہ گھر انہیں گھروں میں سے ہیں؟
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ہاں یہ گھر ان گھروں میں سب سے افضل ہے![۱]

     روایت میں نقل ہوا ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نو(۹) مہینوں تک اپنی بیٹی کے گھر پر آکر سلام کیا کرتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے: «إِنَّما یُرید اللّه لیذهبَ عَنْکُمُ الرِّجْس أَهل البَیت و یُطهّرکُمْ تَطهیراً[سورۂ احزاب ، آیت:۳۳] بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت(علیہم السلام) کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے»[۲]۔
     جس گھر کی فضیلت میں اتنی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں اسی گھر پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد کیا ہوا، اسی بات کو اس مقالہ میں اہل سنت کی کتابوں میں جو نقل ہوا ہے اس کو بیان کیا جارہا ہے:

۱۔ کتاب "المصنّف" میں ابن ابى شیبه نقل کرتے ہیں:
     جس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابوبکر کے لئے بیعت لی جارہی تھی، حضرت علی(علیہ السلام) اور  زیبر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے گھر میں داخل ہوتے وقت اس کے بارے میں مشورہ کررہے تھے، یہ بات عمر ابن خطاب تک پہونچی، وہ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا ) کے گھر میں داخل ہوئے اور کہا: اے رسول کی بیٹی خداکی قسم  ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب آپ کے والد ہیں اور ان کے بعد آپ ہے، لیکن اگر یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع  ہوئے تو یہ محبت اس بات سے مجھے منع نہیں کریگی کہ میں ان لوگوں کے ساتھ اس گھر کو آگ لگانے کا حکم دوں، عمر  نے یہ سب کہا اور چلاگیا اسی وقت حضرت علی(علیہ السلام) اور زیبر  آئے، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: آپ لوگ جانتے ہیں کہ عمر ابھی یہاں آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر دوبارہ اس گھر میں آپ لوگوں کا اجتماع ہوا تو اس گھر کو آگ لگادیگا، خدا کی قسم اس نے جس بات کی قسم کھائی ہے وہ اسے انجام دیکر رہیگا[۳]۔

۲۔  "انساب الاشراف" میں بلاذری نقل کرتے ہیں
     ابوبکر نے علی(علیہ السلام) کے پاس بیعت لینے کے لئے لوگوں کو روانہ کیا لیکن علی(علیہ السلام) نے بیعت کرنے سے منع کردیا، اس کے بعد عمر ایک فتیلہ(آگ لگانے والی) کے ساتھ دروازے پر آیا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: اے ابن خطاب کے بیٹے کیا تم میرے دروزے کو جلانا چاہتے ہو؟ عمر نے کہا: ہاں، یہ کام اس چیز کی  مدد کریگا جس کے لئے آپ کے والد مبعوث کئے گئے تھے[۴]۔

۳. کتاب "الإمامة و السیاسة"میں ابن قتیبه  اس طرح لکھتے ہیں:
     جن لوگوں نے ابوکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا اور حضرت علی(علیہ السلا) کے گھر میں جمع ہوگئے تھے ابوبکر نے عمر کو بھیجا تاکہ ان لوگوں کو لیکر آئے، وہ علی(علیہ السلام) کے دروازہ پر آیا اور آواز لگائی کہ سب باہر آجائیں لیکن ان لوگوں نے باہر آنے سے انکار کیا، اس وقت عمر نے لکڑیاں منگوائی اور کہا: خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ باہر آتے ہو یا میں اس گھر کو آگ لگادوں! ایک شخص نے عمر سے کہا :اے حفص کے بیٹے اس گھر میں فاطمہ(سلام اللہ علیہا) رہتی ہیں! اس نے کہا رہتی ہوں![۵]۔

۴. طبری اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
     جس وقت لوگ حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر میں جمع ہوئے تھے عمر ابن خطاب ان کے گھر پر آئے اور کہا: اگر تم لوگوں نے بیعت نہیں تو میں اس گھر کو آگ لگادونگا[۶]۔

     اسی طرح اہل سنت ک دوسرے مشھور تایخی کتابوں میں تاریخ دانوں اور مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کو نقل کیا ہے کہ عمر ابن خطاب نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا ) گھر پر آگ لگوائی۔
نتیجه:
     ان سب کتابوں میں اس بات کی تصدیق کے بعد کے شھزادی(سلام اللہ علیہا) کے گھر پر آگ لگائی گئی، کوئی بھی انصاف پسند شخص اس بات کا انکار نہیں کرسکتا، خد اہم سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت فرمائے۔

تٖفصیل کےلئے   ان کتابوں کا مراجعہ کیا جا سکتا ہے:

معجم المطبوعات العربیة: ۱/۲۱۲۔  الامامة و السیاسیة، ص۱۳۔  عقد الفرید: ۴/۹۳، چاپ مکتبة هلال۔  الأموال: پاورقی۴، چاپ نشر کلیات ازهریة، الأموال،۱۴۴، بیروت ۔ میزان الاعتدال:ج۲، ص۱۹۵۔  معجم کبیر طبرانی:۱/۶۲، شماره حدیث۳۴، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی۔  عقد الفرید:۴/۹۳، چاپ مکتبة الهلال۔ الوافی بالوفیات: ۶/۱۷، شماره:۲۴۴۴; ملل و نحل شهرستانی:۱/۵۷، چاپ دار المعرفة، بیروت۔   شرح نهج البلاغه:۲/۴۶ و۴۷، چاپ مصر۔   مروج الذهب:۲/۳۰۱، چاپ دار اندلس، بیروت۔ میزان الاعتدال:۳/۴۵۹۔ عبدالفتاح عبدالمقصود، علی بن ابی طالب:۴/۲۷۶-۲۷۷۔  کتاب الامامة و الخلافة، ص۱۶۰ و۱۶۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] «قرأ رسول اللّه هذه الآیة (فى بیوت أذن اللّه أن ترفع و یذکر فیها اسمه» فقام إلیه رجل: فقال: أی بیوت هذه یا رسول اللّه(صلى الله علیه وآله)؟ قال: بیوت الأنبیاء، فقام إلیه أبوبکر، فقال: یا رسول اللّه(صلى الله علیه وآله): أ هذا البیت منها، ـ مشیراً إلى بیت علی و فاطمة(علیهما السلام) ـ قال: نعم، من أفاضلها»۔ جلال الدین سیوطی، الدرّ المنثور فی تفسیر المأثور،ج۵، ص۵۰، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، قم،۱۴۰۴۔
[۲] در المنثور،  ج۵ ، ص۱۹۹.
[۳] «انّه حین بویع لأبی بکر بعد رسول اللّه(صلى الله علیه وآله) کان علی و الزبیر یدخلان على فاطمة بنت رسول اللّه، فیشاورونها و یرتجعون فی أمرهم.فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللّه(صلى الله علیه وآله) و اللّه ما أحد أحبَّ إلینا من أبیک و ما من أحد أحب إلینا بعد أبیک منک، و أیم اللّه ما ذاک بمانعی إن اجتمع هؤلاء النفر عندک أن امرتهم أن یحرق علیهم البیت.قال: فلما خرج عمر جاؤوها، فقالت: تعلمون انّ عمر قد جاءَنی، و قد حلف باللّه لئن عدتم لیُحرقنّ علیکم البیت، و أیم اللّه لَیمضین لما حلف علیه»۔  بن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد(متوفاي۲۳۵ هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج۷، ص۴۳۲، ح۳۷۰۴۵، کتاب المغازي، باب ما جاء في خلافة ابي بکر وسيرته في الرده، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1۱۴۰۹هـ.          http://www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php?idnews=7104
[۴] «انّ أبابکر أرسل إلى علىّ یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معه فتیلة! فتلقته فاطمة على الباب.فقالت فاطمة: یابن الخطاب، أتراک محرقاً علىّ بابی؟ قال: نعم، و ذلک أقوى فیما جاء به أبوک...»۔ الباذری، انساب الأشراف، كتاب جمل من انساب الأشراف، أحمد بن يحيى بن جابر البلاذرى (م۲۷۹)، تحقيق سهيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى،۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
[۵] «انّ أبابکر رضی اللّه عنه تفقد قوماً تخلّقوا عن بیعته عند علی کرم اللّه وجهه فبعث إلیهم عمر فجاء فناداهم و هم فی دار علی، فأبوا أن یخرجوا فدعا بالحطب و قال: والّذی نفس عمر بیده لتخرجن أو لاحرقنها علی من فیها، فقیل له: یا أبا حفص انّ فیها فاطمة فقال، و إن«۔
[۶] تاریخ طبری:۲/۴۴۳، چاپ بیروت. «أتی عمر بن الخطاب منزل علی و فیه طلحة و الزبیر و رجال من المهاجرین، فقال و اللّه لاحرقن علیکم أو لتخرجنّ إلی البیعة، فخرج علیه الزّبیر مصلتاً بالسیف فعثر فسقط السیف من یده، فوثبوا علیه فأخذوه.»

منبع:   http://www.hawzah.net/fa/News/View/78871

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 30