خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو جب خبر ملی کہ آپؑ کے فدک کے غصب کرنے پر خلیفہ نے پختہ ارادہ کرلیا ہے تو آپ مکمل حجاب کے ساتھ خواتین کے حلقہ میں چلتی ہوئیں مسجد میں داخل ہوئیں اور آپؑ اور لوگوں کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا، آپ نے ایسا دکھ بھرا گریہ کیا کہ لوگ بھی رو پڑے، پھر آپؑ نے پس پردہ خطبہ دینا شروع کیا ہی تھا کہ لوگ دوبارہ رو پڑے۔ جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے دوبارہ اپنا کلام شروع کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رَوی عَبْدُاللّهِ بنُ الحَسَنِ بِاِسْنادِهِ عَنْ آبائِه عليهم السلام: إنّه لَمّا أَجْمَعَ اَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ عَلی مَنْعِ فاطِمَةَ عليها السلام فَدَکاً وَ بَلَغَها ذلِکَ لاثَتْ خِمارَها عَلی رَأْسِهٰا وَاشْتَمَلَتْ بِجِلْبابِهٰا وَ أَقْبَلَتْ فی لُمَّةٍ مِنْ حَفَدَتِها وَ نِساءِ قَوْمِهٰا تَطَاُ ذُیُولَها ما تَخْرِمُ مِشْیَتُهٰا مِشیَةَ رَسُولِاللّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ حَتّی دَخَلَتْ عَلی أَبی بَکْرٍ وَ هُوَ فی حَشْدٍ مِنَ الْمُهاجِرینَ وَ الأنْصٰارِ وَ غَیْرِهِمْ فَنیطَتْ دُونَها مُلاَءةٌ ثُمَّ أنتْ أَنَّةً اَجْهَشَ الْقَوْمُ لَها بِالْبُکاءِ فَارْتَجَّ الْمَجْلِسُ ثُمَّ أمْهَلَتْ هنیئةً حَتّی إذا سَکَنَ نَشیجُ الْقَوْمِ وَ هَدَأتْ فَوْرَتُهُمْ، اِفْتَتَحَتِ الْكَلامَ بِحَمْدِ اللّهِ وَ الثَّناءِ عَلَيْهِ وَ الصَّلاةِ عَلی رَسُولِهِ، فَعادَ الْقَوْمُ فی بُكائِهِمْ فَلَمّا أَمْسَكُوا عادَتْ فی كَلامِها، فَقَالَتْ عَلَيْها السّلامُ:[1]…
جناب عبداللہ بن حسن مثنی جو مشہور عالم اور عظیم شخصیت تھے، اپنے آباء و اجداد (علیہم السلام) سے نقل کرتے ہیں:
جب ابوبکر اور عمر کا ارادہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے فدک چھیننے کے لئے پختہ ہوگیا اور اس نے یہ خبر آنحضرتؑ تک پہنچا دی تو آپؑ نے اپنا حجاب اپنے سر پر لپیٹا اور اپنی چادر پہنی اور اپنی ہم سن کنیزوں اور اپنی رشتہ دار خواتین کے حلقہ میں روانہ ہوئیں، آپؑ اپنے کپڑوں کے دامن پر قدم رکھ رہی تھیں، آپؑ کی چلن بالکل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی چلن جیسی تھی یہاں تک کہ آپؑ (مسجد میں) ابوبکر پر داخل ہوئیں اور وہ مہاجرین، انصار اور دیگر لوگوں کے گروہ میں بیٹھا تھا تو آپؑ کے سامنے پردہ لٹکایا گیا، آپؑ بیٹھ گئیں، پھر آپؑ نے ایسا دردبھرا گریہ کیا کہ لوگ آپؑ کی خاطر رونے لگے تو محفل بے قرار ہوگئی، پھر حضرتؑ نے کچھ دیر مہلت دی یہاں تک کہ جب لوگوں کا گریہ رُک جائے اور ان کا جوش و خروش تھم جائے۔ آپؑ نے اپنے کلام کو اللہ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ پر صلوات سے شروع کیا، تو لوگ دوبارہ رونے لگے، جب خاموش ہوگئے تو آپؑ نے اپنے کلام کو دوبارہ آغاز کیا اور آپ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا:"…
الفاظ کے معانی: اَجْمَعَ: پختہ ارادہ کرلیا، اپنے عزم کو جزم کردیا۔ لاَثَتْ: لیپٹا، باندھا۔ خِمارَھا: سر پر اوڑھنے والا کپڑا، جیسے مقنعہ۔ لُمَّةٍ: ہم سن۔ حَفَدَتِها: کنیزیں۔ تَطَأُ: قدم رکھتی تھیں۔ ذُيُولَها: چادر یا کپڑوں کا نچلا حصہ، دامن۔ ماتَخْرِمُ – خَرَمَ: کوئی کمی نہ تھی (چلن بالکل ان جیسی تھی)۔ حَشْدٍ: گروہ، جماعت۔ فَنِيطَتْ دُونَها: ان کے قریب لٹکایا گیا۔ مُلاءَة: پردہ۔ اَنَّتْ: گریہ کیا۔ اَجْهَشَ: زیادہ پریشانی کی وجہ سے گریہ کرنا اور ادھر اُدھر گرنا۔ اِرْتَجَّ: جوش و خروش کرنے لگا۔ نَشِيجُ الْقَوْمِ: لوگوں کی گریہ و زاری۔ ھَدَأَتْ: تھم گیا۔
تشریح: جب ابوبکر اور عمر نے فدک کو غصب کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو یہ خبر حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو ملی۔ آپؑ نے مقنعہ جسے خِمار کہا جاتا ہے اپنے سر پر لپیٹا، خِمار اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو سر، گردن اور سینہ کو چھپا دیتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ "وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ[2]"، "اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں"۔ اس واقعہ کی روایت میں دونوں لفظ غورطلب ہیں، ایک خِمار اور دوسرا لاثَتْ، جس کے معنی لپیٹنے کے ہیں، یعنی آپؑ نے اس کپڑے کو سر پر صرف اوڑھا نہیں بلکہ لپیٹ لیا۔ پھر "وَ اشْتَمَلَتْ بِجِلْبابِها" جلباب ایسی چادر ہوتی ہے جسے کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے، آپؑ نے اس چادر کو یوں اوڑھا کہ "اشْتَمَلَتْ" یعنی اس چادر سے پورے جسم کو ڈھانپ لیا۔ "وَ أَقْبَلَتْ فی لُمَّةٍ مِنْ حَفَدَتِها وَ نِساءِ قَوْمِها"، اتنے حجاب کے باوجود بھی اکیلی مسجد کی طرف روانہ نہیں ہوئیں، بلکہ آپؑ ایسے حلقہ میں تھیں جو دو طرح کی خواتین پر مشتمل تھا، ایک کنیزوں کا گروہ جو آپؑ کی ہم سن تھیں اور دوسرا اپنی رشتہ دار خواتین کا گروہ، لہذا آپؑ دو طرح کے حجاب میں پوشیدہ ہوکر مسجد کی طرف روانہ ہوئیں، ایک حجاب جس سے جسم کو مکمل ڈھانپ لیا اور دوسرا حجاب یہ تھا کہ اردگرد خواتین کا حلقہ لگا رہا تا کہ آپؑ کے ظاہر کی پہچان نہ ہونے پائے اور مرد آپؑ کو نہ پہچان سکیں۔
"تَطَاُ ذُيُولَها": تَطَاُ یعنی قدم رکھنا اور ذُيُول کپڑوں کے نچلے حصہ یعنی دامن کو کہا جاتا ہے، آپؑ اپنے قدموں کو اپنے کپڑوں کے دامن پر رکھتے ہوئے چل رہی تھیں، آپؑ کے کپڑے لمبے تھے کہ آپؑ کے قدموں کو چھپاتے تھے اور آپؑ کے چلتے ہوئے، کپڑے قدموں کے نیچے آجاتے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آپؑ تیز چل رہی تھیں، کیونکہ اگلا جملہ یہ ہے:"ما تَخْرِمُ مِشْیَتُهٰا مِشیَةَ رَسُولِاللّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ": آپؑ کی چلن، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی چلن سے بالکل کم نہیں تھی اور بالکل جس عظمت، آرام اور وقار کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے تھے، آپؑ بھی اسی طرح چلیں۔ "حَتّی دَخَلَتْ عَلی أَبی بَكْرٍ وَ هُوَ فی حَشْدٍ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الأنْصارِ وَ غَيْرِهِمْ": یہاں تک کہ آپؑ مسجد میں داخل ہوئیں تو ابوبکر مہاجرین، انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان میں بیٹھا تھا۔ "فَنيطَتْ دُونَها مُلاَءةٌ"، پھر آپؑ اور لوگوں کے درمیان ایک پردہ لٹکا دیا گیا، اگلے لفظ "فَجَلَست "سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپؑ کے بیٹھنے سے پہلے، پردہ جلدی سے لٹکایا گیا یعنی جونہی خبر ملی کہ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) مسجد کے راستے میں ہیں یا آپؑ کے داخل ہوتے ہی پردہ لٹکا دیا گیا، لہذا مذکورہ بالا حجابوں کے علاوہ یہ ایک اور حجاب ہے جو آپؑ اور مردوں کے درمیان میں حائل تھا جو سنت بن گئی اور اب بھی مجالس و محافل میں پردہ لٹکایا جاتا ہے، لہذا اس نیک سنت کو مزید فروغ دینا چاہیے۔
"ثُمَّ أنتْ أَنَّةً اَجْهَشَ الْقَوْمُ لَها بِالْبُكاءِ": آپؑ جب بیٹھ گئیں تو گریہ کیا اور آپؑ کا گریہ اس قدر دردبھرا تھا کہ مہاجرین، انصار، مرد اور عورتیں سب رونے لگے، لوگوں کا یہ گریہ معمولی اور عام نہیں تھا کیونکہ "أَجْهَشَ الْقَوْمُ" کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ غم کی وجہ سے گریہ کرنا، پیچ و تاب کھانا اور اِدھر اُدھر گرنا جیسے بچہ پریشانی کی وجہ سے اپنے آپ کو ماں کی گود میں گرا دیتا ہے، آپؑ کے گریہ نے لوگوں پر ایسی حالت طاری کردی۔ " ثُمَّ أمْهَلَتْ هنیئةً حَتّی إذا سَکَنَ نَشیجُ الْقَوْمِ وَ هَدَأتْ فَوْرَتُهُمْ": محفل بے قرار اور مضطرب ہوگئی، آپؑ نے کچھ دیر لوگوں کو مہلت دی تا کہ لوگ آرام ہوجائیں، اس جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ لوگ کچھ دیر بے قراری کے ساتھ رو رہے تھے لہذا آپؑ نے کچھ دیر مہلت دی تا کہ آرام ہوجائیں۔
"اِفْتَتَحَتِ الْكَلامَ بِحَمْدِ اللّهِ وَ الثَّناءِ عَلَيْهِ وَ الصَّلاةِ عَلی رَسُولِهِ": آپؑ نے لوگوں کے آرام ہوجانے کے بعد کلام کرنا شروع کیا اور آپؑ نے اپنے کلام کو اللہ تعالی کی حمد و ثناء اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات سے آغاز کیا۔
"فَعادَ الْقَوْمُ فی بُكائِهِمْ فَلَمّا أَمْسَكُوا عادَتْ فی كَلامِها": جب آپؑ نے کلام کرنا شروع کیا تو لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، لہذا جب وہ خاموش ہوگئے تو حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنے کلام کو دوبارہ آغاز کیا۔
نتیجہ: یہاں تک اصل خطبہ کی مقدمات کا سلسلہ بیان ہوا، اس کے بعد جو آپؑ نے خطبہ ارشاد فرمایا اسے تشریح کے ساتھ اگلے مضامین میں بیان کیا جائے گا۔ ان مقدمات میں چند چیزیں غور طلب ہیں: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا حجاب پر حجاب، کپڑوں اتنے لمبے کے پاوں کے نیچے آتے یعنی پاوں مکمل طور پر چھپے ہوئے تھے، بنابریں سر پر حجاب، پھر پورے جسم پر بھی حجاب، پاوں بھی بالکل چھپے ہوئے اور پھر آپؑ کا خواتین کے حلقہ میں مسجد میں رونق افروز ہونا، پھر پردہ کا لٹکایا جانا، آنحضرتؑ کی اس سنت سے ہمارے معاشرے کی خواتین کو درس حاصل کرنا چاہیے کہ پردہ کا اتنا خیال رکھیں کہ نامحرم لوگوں کی نظر خواتین پر نہ پڑسکے، حضرت سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) سے محبت کے دم بھرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کی سیرت پر عمل پیرا ہو، ورنہ محبت کا دعوی کرنا اور پھر محبت کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ محبت حقیقی محبت نہیں ہے بلکہ خیالی محبت ہے۔ حقیقی محبت فرمانبرداری اور اطاعت کا پھَل دیتی ہے اور محب اپنے محبوب کے کردار سے متاثر ہوکر محبوب کا رنگ پکڑتا ہے اور دن رات کوشش کرتا ہے کہ اس کے حکم پر عمل کرکے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرے۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے سب موالیوں کو چاہیے کہ آنحضرتؑ کی سیرت کو اپنی زندگی کے ہر کام میں اپنا کر اپنی محبت میں مزید اضافہ کریں۔ ہر مرد اپنی اہلیہ کو سیرت فاطمیہ کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کرے اور ہر خاتون اپنے سب کاموں کو سیرت فاطمیہ کے تناظر میں دیکھے اور اُس کو میزان و معیار بنائے،اگر اس کا کردار آنحضرتؑ کی سیرت سے ملتا ہو تو اسے مزید مضبوط اور پائدار بنائے اور اگر اس سے ہٹ کر ہے تو اپنی خیالی خواہشات کو آنحضرتؑ کی سیرت پر قربان کردے، اپنی اِن خواہشات سے دستبردار ہوکر گیارہ اماموں کی والدہ ماجدہ کی سیرت کو اپنانا شروع کردے، گھریلو کام، بول چال، عبادت، شوہر کے حقوق، اولاد کے حقوق، پاکدامنی، حجاب اور نامحرموں سے ممکن حد تک دوری اختیار کرنے کے لحاظ سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۱، ۱۳۲۔
[2] سورہ نور، آیت ۳۱۔
Add new comment