سوال و جواب
خلاصہ: بصیر انسان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا ہے اور واقعات سے عبرت حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تقویٰ اور پرہیزگاری کے دامن کو تھامے رہتا ہے۔
خلاصہ: غزوہ بنی نضیر ۲۲ ربیع الاول چار ہجری کو رونما ہوا، جس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یھودیوں کی عہد شکنی کی اطلاع ملی اسی وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ غزوہ رونما ہوا۔
خلاصہ: وقف ایک عقد ہے اور اس کے دو رکن ہیں ایک کو واقف کہتے ہیں اور دوسرے کو موقوف، دونوں کی اپنی اپنی مخصوص شرطیں ہیں۔
خلاصہ: بصیرت اور عمل دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اگر کسی کے پاس بصیرت ہے تو وہ بصیرت اسے خود بخود عمل کی طرف دعوت دیتی ہے اور اگر کسی کے پاس عمل ہے تو اس کا عمل بصیرت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
خلاصہ: بصیرت وہ صفت ہے جو اپنے موصوف کے شعور کے بیدار ہونے، فہم و ادراک سے آراستہ ہونے اور شناخت کی قدرت کے حامل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
خلاصہ: وقف کا عمومی فلاحی امور سے بہت گہرا تعلق ہے، خصوصاً ایسے معاشروں میں جن میں طبقاتی اختلاف بہت زیادہ ہو، وقف کے ذریعے دولتمندشخص کسی فقیر ونادار کے بارے میں سوچ سکتا ہے، طاقتور، کمزور کی خبرگیری کرسکتا ہے اور اس طرح سے بہت زیادہ عمومی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ وقف کے اور بھی عمومی فوائد و آثار ہیں جنہیں اس مقالہ میں بیان کیا گیا ہے۔
خلاصہ: یہ حقیقت اولاد آدم کی تمام فرد پر آشکار ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ بھی ایک مقام ہے جہاں ہر انسان کو جانا ہے، جسے آخرت کے نام سے تعبیر کیاگیا ہے، در حقیقت دنیا اسی آخرت کا مقدمہ ہے لہذا جو یہاں کریں گے وہی وہاں پائیں گے۔ چنانچہ مقالہ ھذا میں وقف کے اخروی آثار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہوجائے کہ وقف بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔
خلاصہ:سفر میں نماز کو قصر پرھنا چاہیے یا پورا پڑھنا ہے روایات کو اگر صحیح طریقے سے دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نماز کو سفر کی حالت میں قصر پڑھنا واجب ہے۔
خلاصہ:کربلا کے بعد اہم ترین واقعوں میں سے ایک یزید کے بیٹے معاویہ کا ایک عمل ہے کہ جس نے خداوند متعال کی رضا کے لیے زمانے کی خلافت کو ٹھکرا دیا۔
خلاصہ: خدا نے ہر بچہ کو برائیوں سے پاک اور بے گناہ پیدا کیا ہے، یہ اس کے والدین ہوتے ہیں جو اس کی تربیت کے ذریعہ اسے اس فطرت پر باقی رکھتے ہیں یا بچہ کو خدا کی عطاء کی ہوئی فطرت سے دور کردیتے ہیں۔