اخروی زندگی پر وقف کے آثار

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: یہ حقیقت اولاد آدم کی تمام فرد پر آشکار ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ بھی ایک مقام ہے جہاں ہر انسان کو جانا ہے، جسے آخرت کے نام سے تعبیر کیاگیا ہے، در حقیقت دنیا اسی آخرت کا مقدمہ ہے لہذا جو یہاں کریں گے وہی وہاں پائیں گے۔ چنانچہ مقالہ ھذا میں وقف کے اخروی آثار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہوجائے کہ وقف بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔

اخروی زندگی پر وقف کے آثار

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان کی زندگی کے دورخ ہیں؛ ایک حصہ کو دنیوی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے تو دوسرے اہم حصہ کو اخروی زندگی کا نام دیا جاتا ہے، اگر انسان کے پہلے حصہ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ ہردم مادیات میں منہمک رہتا ہے۔
 انسانوں کی اس دنیا میں سرگرمی کا بہت بڑا حصہ رزق کمانے کے لئے ہے۔ بالعموم انسان مال کے حصول کے لئے بہت بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس مال کے حصول کا مقصد اپنے گھر بار کو سنوارنا، اچھا کھانا، اچھا بہنا، بیوی بچوں کی خواہشات کو پورا کرنا، مستقبل میں آنے والے حادثات اور خوشیوں کے لمحات میں اس کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ انسان کے دل میں مال کی محبت انتہائی شدید ہے۔ خداوند عالم نے سورہ عادیات کی آیت نمبر8 میں واضح فرمایا’’ اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے ‘‘ـ اس مال کی محبت انسان کو کئی مرتبہ خود غرضی، حرص اور لالچ کی طرف لے جاتی ہے اور وہ اپنے گرد و نواح میں رہنے والے بے کس، یتیم، مساکین اور مفلوک الحال لوگوں کی ضروریات کو کلی طور پر نظر انداز کردیتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب حمید میں جہاں پر انسانوں کو نماز قائم کرنے، ذکر و اذکار کرنے، روزے رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیا ہے وہیں پر اس مال جس کی محبت انسان کے دل میں انتہائی شدید ہے اس کے ایک حصہ کو بھی اپنے راستے میں خرچ کرنے کی تلقین کی ہے۔[1]
دوسری طرف اگر غور کیاجائے تو  فرمان معصوم ؑ ہے  ’’الدنيا مزرعة الآخر ‘‘ [2]  دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ ہر شخص اس دنیا میں جو بوئے گا وہی اس کو آخرت میں کاٹے گا۔ انسان کی زندگی چند روزہ ہے، اس زندگی کے اختتام کے بعد وہ برزخی زندگی میں قدم رکھتا ہے ۔جہاں پر انسان کے اعمال نعمت یا عذاب کی صورت میں اس کے سامنے آتے ہیں، اس زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انسان نیک اعمال کرنے کی حسرت کے باوجود کچھ نہیں کر پاے گا۔ پس وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان اگر نیک آثار، وقف اور صدقہ جاریہ کی شکل میں دنیا میں چھوڑ کر آخرت کی طرف سفر کرے تو گویا اس نے اپنے لئے نہ ختم ہونے والے ثواب کا انتظام کیا جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: ’’ نَکتُبُ مَاقَدَّمُوا وَآثَارَہُم ‘‘ (یس/ 12)۔ اور جو کام انہوں نے کیے ہیں اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں۔
صاحب تفسیر المیزان لکھتے ہیں: "جو کام انہوں نے خود کئے ہیں اور جن کاموں کے اثرات انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں اور اسی کا ہم انہیں بدلہ بھی دیں گے۔ اگر اچھے اعمال ہوں تو جزا کی صورت میں لیکن اگر برے ہوں تو اس کی سزا بھی دی جائے گی" یہاں تک کہ نیک اولاد جو نیک اعمال کرتی ہیں ان کے ثواب میں کمی کئے بغیر ان کے والدین کو بھی انہی کے برابر ثواب دیا جائے گا، اس لئے کہ اولاد بھی والدین کی کوشش اور کمائی کا ایک حصہ ہیں۔
ایک مقام پر رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ’’ ان مما يلحق المؤمن من عمله و حسناته  بعد موته علما نشره و ولدا صالحا ترکه، و مصحفا ورثه او مسجدا بناه. او بيتا لابن السبيل بناه او نهرا اجراه، او صدقة اخرجها من ماله في صحته و حياته و تلحقه من بعد موته ‘‘۔ انسان کے  اس دنیا سے رحلت کرنے کے  بعد بھی چند چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہے گا۔ 1 ۔ لوگوں میں علم کی روشنی پھیلا کر جائے، 2 ۔ نیک اولاد کی پرورش کر جائے، 3 ۔ قرآن کو ارث چھوڑ کر جائے، 4 ۔ مسجد بنا ئے، 5 ۔ بے پناہ مسافروں کے لئے رہائش کا انتظام کرے، 6 ۔ پانی کی نہر بنائے اور لوگ اس سے فائدہ حاصل کرے،  7 ۔  اپنی زندگی میں اپنے ہی مال میں سے کوئی صدقہ اللہ کی راہ میں دے کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔[3]
حضرت علی علیہ السلام نے ایک وقف نامے میں اپنے وقف کرنے کے ہدف کو اس طرح قلمبند فرمایا ہے: ’’ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ لِيُولِجَنِي بِهِ الْجَنَّةَ وَ يَصْرِفَنِي بِهِ عَنِ النَّارِ وَ يَصْرِفَ النَّارَ عَنِّي يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوه‏ ‘‘[4]۔ میں نے صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر وقف کیا ہے تاکہ اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ مجھے بہشت نصیب کرے اور آتشِ جہنم سے مجھے دور رکھے، اور آتش کو بھی مجھ سے دور رکھے، جس دن بعض لوگوں کے چہرے تابناک ہوں گے اس کے برعکس بعض کے چہرے سیاہ ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] آیات کے مطالعہ کے لئے آپ مندرجہ ذیل حوالوں کی طرف رجوع فرماسکتے ہیں:
البقرہ 261۔  البقرہ 148۔ البقرہ 215۔ سورہ معارج 24-27۔  سورہ مائدہ/ 2۔  سورہ مائدہ/9۔  سوره آل عمران / 92۔ سورہ نور/55۔  سورہ کہف/ 46۔  سورہ مزمل/ ۲۰۔
[2]  بحار الانوار، ج67، ص225، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، ۱۴۰۳ ق‏، چاپ دوم۔
[3] الكافي، ج5، ص46، کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، انتشارات دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1365 هجرى شمسى، چاپ چهارم۔
[4] الكافي، ج7، ص49، کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، انتشارات دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1365 هجرى شمسى‏، چاپ چہارم۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 15 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 35