انسان کی دنیوی زندگی پر وقف کے آثار

Sun, 04/16/2017 - 11:16

 خلاصہ: وقف کا عمومی فلاحی امور سے بہت گہرا تعلق ہے، خصوصاً ایسے معاشروں میں جن میں طبقاتی اختلاف بہت زیادہ ہو، وقف کے ذریعے دولتمندشخص کسی فقیر ونادار کے بارے میں سوچ سکتا ہے، طاقتور، کمزور کی خبرگیری کرسکتا ہے اور اس طرح سے بہت زیادہ عمومی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ وقف کے اور بھی عمومی فوائد و آثار ہیں جنہیں اس مقالہ میں بیان کیا گیا ہے۔

اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی تاریخ کے ہردور میں غریبوں اورمسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے، انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے، مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے، مریضوں اور پریشاں حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اہل علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔
وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔ مسلمانوں نے ہر دور اور ہر دیار میں اس کارخیر اور فلاحی پروگرام کو رائج کیا ہے۔ وقف صرف محتاجوں اور مفلسوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ public works سب کے لیے ہے، اس میں امیر وغریب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔
 وقف کا عمومی بھلائی کے کاموں سے بہت گہرا تعلق ہے،خصوصاً ایسے معاشروں میں جن میں طبقاتی اختلاف بہت زیادہ ہو، وقف کے ذریعے دولتمندشخص کسی فقیر ونادار کے بارے میں سوچ سکتا ہے، طاقتور کمزور کی خبرگیری کرسکتا ہے اور اس طرح سے بہت زیادہ عمومی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔
  غریبوں کی دستگیری، محروموں کی مدد، تنگدستوں کی زندگیوں میں بہتری، اقتصادی عدالت، لوگوں کی سطحِ زندگی میں توازن، علم کی ضوفشانی کرنا، اسلامی معارف اور دینی مبانی کی تعلیم و تربیت اور ثقافت کی ترویج، مساجد کی تعمیر، امام بارگاہوں کی ساخت، کتابخانوں، مدارس، ہاسپیٹلز، پناہ گاہوں اور رفاہِ عامہ کے مراکز کا قیام، راستے بنانا، پُلوں کی تعمیر وغیرہ ایسے امور ہیں جو موقوفات سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ایک اور زاویے سے اگردیکھا جائے تو وقف کا عمل، انسان کے اندر سےصفاتِ رذیلہ(بُری اور ناپسندیدہ صفات)جیسے طمع و حرص اور دنیا پرستی کا قلع قمع کرتا ہے اورقناعت اور نوع دوستی(بشر دوستی)کو بڑھاتا اور مضبوط کرتا ہے۔
وقف کرنا، لوگوں کے درمیان کشمکش اور فخر اور غرور کی جگہ انکے درمیان تعاون کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے اور ان کے اندر امداد کے جذبہ کو بامِ عروج تک پہنچاتا ہے۔ وقف کرنا عشق و محبت اور بشر دوستی سے سرشارمعاشرے کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے،فکری سطح کو بلند کرتا ہے اور وقف شدہ اشیاء کی درآمد، پیاسوں کو سیراب کرنے، مسافروں کی بھلائی کا سامان فراہم کرنے کا باعث ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ وقف کے اہداف و مقاصد فقراء اور عبادت گاہوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ عمومی اہداف، علمی مراکز کی ایجاد، ہسپتالوں وغیرہ کی تعمیر کو بھی شامل ہیں۔
مقالہ کے آخر میں وقف کے عام اہداف اور فوائد سے ہٹ کر ایک خصوصی فائدہ کی طرف بھی اشارہ کرنا برا نہ ہوگا  اور وہ یہ کہ مال و دولت میں اضافہ ہونا، ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مال و دولت میں روز بروز اضافہ ہو، وہ اپنے ہر کام میں فائدہ کے درپے رہتا ہے چنانچہ اس کا علاج بھی خدا نے بتادیا کہ انسان اگر اپنے مال و دولت میں اضافہ کا خواہاں ہو تو وہ راہ خدا میں وقف اور انفاق کرے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے’’ مَثَلُ الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ في‏ كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضاعِفُ لِمَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ ‘‘۔(سورہ بقرہ/۲۶۱) "جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔"
ایک مقام پر اس طرح ارشاد ہوتا ہے: ’’وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَ اسْتَغْفِرُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم‘‘(سورہ مزمل/۲۰) اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی بھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاؤ گے، بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔ اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔‘‘
اس آیت میں بھی " خیر" اور " قرض حسنہ" سے مراد وقف ہے کیونکہ خیر یعنی ہر اچھا کام اور واضح ہے کہ وقف  سے اچھا کام اور کوئی نہیں۔ اسی طرح قرض حسنہ بھی وقف کے مصادیق میں سے ہے۔[۱]
دوسری اہم چیز جس کا ہر انسان خواہاں ہوتا ہے وہ ہے شہرت، اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں مشہور ہو اس کا بھی راستہ وقف سے ہوتا ہوا گزرتا ہے چنانچہ حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’ من بذل بره اشتهر ذکره[۲] ‘‘ ’’اگر کسی نے اپنی نیکی سے لوگوں کو فائدہ پہونچایا تو خداوند عالم اسے مشہور کردے گا (اسکی یاد کو ہمیشہ باقی رکھے گا)‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱] تفسیر المیزان، ج۲۰، ص۱۱۹، طباطبائی، محمد حسین، مترجم: موسوى همدانى سيد محمد باقر، انتشارات دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ى مدرسين حوزه علميه قم‏، قم، ۱۳۷۴ ش، چاپ پنچم۔‏
[۲] تصنیف غرر الحکم و درر الکلم ، ص۴۴۹، تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، محقق / مصحح: درايتى، مصطفى‏، انتشارات دفتر تبليغات‏، قم‏، ۱۳۶۶ ش‏، چاپ اول‏۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 104