خلاصہ: بصیرت اور عمل دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اگر کسی کے پاس بصیرت ہے تو وہ بصیرت اسے خود بخود عمل کی طرف دعوت دیتی ہے اور اگر کسی کے پاس عمل ہے تو اس کا عمل بصیرت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عمل سے مراد ہر وہ سعی و کوشش ہے جس کو انسان رضائے الہی کی خاطر انجام دیتا ہے، اس کے دو رخ ہوتے ہیں؛ ایک مثبت، یعنی اوامر خدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا۔ اس طرح عمل سے مراد یہ ہے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے، چاہے کسی کام کو بجا لایا جائے اور چاہے کسی کام سے پر ہیز کیا جائے۔ بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہے۔ بصیرت عمل کا سبب ہوتی ہے اور عمل، بصیرت کا، اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بصیرت میں زیادتی، عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح ان میں سے ہر ایک، دوسرے کے اضافہ کا موجب ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان ان کے سہارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پہونچ جاتا ہے۔
عمل صالح کا سرچشمہ بصیرت
بصیرت کا ثمرہ(نتیجہ) عمل صالح ہے اگر دل و جان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کرے گی، بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے۔ روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی، دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرمارہے ہیں: «الْمُوقِنُ يَعْمَلُ لِلَّهِ كَأَنَّهُ يَرَاهُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يَرَى اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ يَرَاه[۱]درجۂ یقین پر فائز انسان، ﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ ﷲکو دیکھ رہا ہو، اگر وہ اﷲکو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم ﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے»۔
بصیرت کی بنیاد عمل صالح
ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے، اسی کے بالمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے۔ دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کو اسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے۔ قرآن کریم، عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوند عالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے: «والذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سُبُلَنا وان ﷲ لمع المحسنین[سورۂ عنکبوت، آیت:۶۹] اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا ﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے»۔
آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ جہاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ہے)کے ذریعہ انسان ہدایت الہی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ہوتا ہے: «لنھدینّھم سبلنا؛ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرینگے»۔
نتیجہ:
اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بغیر بصیرت کے انسان اگر عمل کریگا تو اسکے عمل میں اتنا وزن نہیں پایاجائیگا اور بغیر عمل کے بصیرت بھی حاصل نہیں ہوسکتی، اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم ہر وقت بصیرت کو حاصل کرنے اور عمل کو بجالانے کی کوشش کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، بحار الأنوار، ج۷۴، ص۲۱، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۲ ق.
منبع: http://www.alhassanain.com/urdu/book/book/ethics_and_supplication/ethics...
Add new comment