خلاصہ: غزوہ بنی نضیر ۲۲ ربیع الاول چار ہجری کو رونما ہوا، جس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یھودیوں کی عہد شکنی کی اطلاع ملی اسی وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ غزوہ رونما ہوا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
غزوہ، اصطلاح میں اس جنگ کو کہا جاتا ہے کہ جس میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خود شرکت کی۔
غزوہ بنی نضیر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہودیوں کے ساتھ دوسری جنگ تھی جو ہجرت کے چوتھے سال ربیع الاول کی مہینہ میں رونما ہوئی[۱]۔
بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ، یہ یہودیوں کے تین قبیلے تھے جنھون نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے عھد و پیمان کیا تھا جس کے بعد رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کے بعد ان لوگوں کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دی گئی، لیکن ان تینوں نے اپنے عھد اور پیمان کو نہیں نبھایا۔
بنی نضیر کے یہودیوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے قتل کی سازش کی اور اپنے عھد اور پیمان کو توڑدیا[۲]، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو وحی کے ذریعہ اس سازش کی اطلاع مل گئی[۳]، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے محمد ابن مسلمہ کو ان کی طرف روانہ کیا اور ان کو مدینہ سے نکلنے کے لئے دس دن کا وقت دیا لیکن ان لوگوں نے اوس و خزرج اور دوسرے قبیلوں کے بھروسہ پر محمد ابن مسلمہ سے کہا کہ ہم اپنے وطن کو نہیں چھوڑینگے[۴]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو جب اس بات کی اطلاع ملی تو آپ اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف جنگ کے ارادہ سے نکل گئے، حضرت علی(علیہ السلام) اس جنگ کے سپاہ سالار تھے، اسلام کے سپاہیوں نے بنی نضیر کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ ۱۵،دن تک باقی رہا[۵] اس دوران آپس میں چھوٹی چھوٹی لڑائی ہوتی رہی اسی دوران حضرت علی(علیہ السلام) نے ان کے ایک بہادر سپاہی ’غروک‘ اور اس کے ساتھیوں کو واصل جہنم کیا، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم سے ان لوگوں کے سروں کو قلعوں کی اندر پھینک دیا گیا، جب ان لوگوں نے ان کے بہادروں کے سروں کو دیکھا تو ان لوگوں کے دلوں میں خوف اور ہراس نے جگہ لے لی[۶]، اور دوسری طرف جن قبیلوں نے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا ان لوگوں نے بھی اپنے وعدوں کو نہیں نبھایا[۷] اسی بناء پر وہ لوگ مجبور ہوگئے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ صلح کریں، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ صرف اپنے وسائل اور سواری کو لیکر جاسکتے ہیں لیکن جن اسلحہ کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا تھا ان کو لے جانے کی اجازت نہیں ہے[۸]، ان لوگوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ۱۵ دن کی مہلت مانگی جس کی آپ نے اجازت دی، آخر کار بنی نضیر کے تمام یہودی مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور کچھ شام کی جانب اور کچھ خیبر کے قلعوں کی جانب چلے گئے [۹] اور کچھ مسلمان ہوگئے[۱۰]۔
اس غزوہ سے ہم سب کو یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اگر ہم لوگوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہے تو اسے نبھانے کی پوری کوشش کریں کیونکہ مسلمان مخصوصا شیعہ جو اپنے آ پ کو رسول خدا(صلی الہ علیہ و آلہ و سلم) اور ان کے اہل بیت(علیم السلام] کا چاہنے والا اور ان کی اتباع کرنے کا دعوی کرتا ہے، اس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے وعدہ کو وفا نہ کرے۔
.........................
حوالے:
[۱]. واقدی، محمد بن سعد؛ کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۹۸۹م، پہہلی چاپ، ج۱، ص۳۶۳.
[۲]. ابن هشام، السیرة النبویه، تحقیق مؤسسة الهدی، قاهره، دارالتقوی، ۲۰۰۲م، پہلی چاپ، ج۲، ص۱۰۹.
[۳]. الطبری، محمدبن جریر، تاریخ الطبری، تحقیق ابو صهیب الکرمی، بیت الافکار، بیروت، پہلی چاپ، ص۳۸۷.
[۴]. واقدی، محمد بن سعد؛ الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیه، ج۲، ص۴۴.
[۵]. بلاذری، احمد بن یحیی؛ تحقیق سهل ذکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۹۹۸م، پہلی چاپ، ج۱، ص۴۱۵.
[۶]. السیرة النبویه، ج۳، ص۱۱۰.
[۷]. الطبقات الکبری، ج۲، ص۴۴.
[۸]. السیرة النبویه، ج۳، ص۱۱۱.
[۹]. تاریخ الطبری، ص۳۸۸.
[۱۰]. السیرة النبویه، ج۳، ص۱۱۱.
منبع: http://mahdi.cc/fa/news/5520
Add new comment