خلاصہ: بصیرت وہ صفت ہے جو اپنے موصوف کے شعور کے بیدار ہونے، فہم و ادراک سے آراستہ ہونے اور شناخت کی قدرت کے حامل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف طرح کے دینی، سماجی اور سیاسی واقعات اور فتنوں کا سامنا کرتا ہے اور ذہن کو الجھن میں ڈال دینے والے حالات سے رو برو ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اپنی فکر و نظر کی حفاظت اور سلامتی کے لئے مخصوص مہارت اور قدرت درکار ہوتی ہے۔ انہیں مہارتوں میں سے جو اس خطرناک ماحول اور حالات میں انسان کو نجات دے سکے، قدرت شناخت اور بصیرت ہے۔ بصیرت اور شناخت کی صلاحیت، پریشانی، الجھن اور دشواریوں کے تاریک راستے پر ایک روشن چراغ کا کردار ادا کرتی ہے اور انسان کو اجتماعی خطروں سے محفوظ رکھتی ہے۔
بصیرت کا مفہوم
ابن منظور، لسان العرب میں لفظ بصیرت کی تعریف میں بیان کرتے ہیں:’’ بصیرت عربی لغت میں قلبی عقیدہ، شناخت، یقین، ہوشیاری اور عبرت کے معنوں کے لئے ہے‘‘[۱]۔ ابن فارس نے بھی لفظ بصیرت کا ترجمہ علم و آگاہی کیا ہے[۲]۔ اگرچہ ابن فارس نے بصیرت کو لغت میں علم کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہر علم، بصیرت ایجاد نہیں کرتا اور اسی طرح، ہر عالم دین کو بصیر نہیں کہا جاسکتا؛ جیسا کہ تاریخ کے دامن میں ابو موسیٰ اشعری جیسے بہت سے افراد پائے جاتے ہیں جو علم رکھتے ہوئے دشمنوں کے ہمپیالہ اور ہمنوالہ نظر آئے، دشمنوں سے مغلوب ہوئے اور انکے فائدہ کے لئے کام کرتے ہوئے دیکھائی دئے۔ اسی بات کی طرف امیرالمومنین(علیہ السلام) اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ وَ مَا كُلُّ ذِي قَلْبٍ بِلَبِيبٍ وَ لَا كُلُّ ذِي سَمْعٍ بِسَمِيعٍ وَ لَا كُلُّ ذِي نَاظِرِ عَيْنٍ بِبَصِير ‘‘ ہر وہ شخص جو قلب رکھتا ہے، خرد نہیں رکھتا اور ہر وہ شخص جو کان رکھتا ہے، سماعت کی قدرت نہیں رکھتا اور ہر آنکھ رکھنے والا، بینا نہیں ہوتا[۳]۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض علم و آگاہی انسان کو بصیر نہیں بناتی بلکہ وہ علم و آگاہی جو انسان کے شعور کو بیدار کرکے حق کو باطل سے الگ کرنے کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے، وہ شعور و ذکاوت، بصیرت کہلاتی ہے اور ایسی شناخت کی صلاحیت کے حامل انسان کو بصیر کہا جائے گا۔
زندگی میں بصیرت کی اہمیت
قرآنی آیات اور روایات، زندگی میں بصیرت کی اہمیت کو بخوبی بیان کرتی ہیں۔ انہیں عظیم آیتوں میں سے ایک یہ آیت ہے ’’ وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثيراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِها وَ لَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِها وَ لَهُمْ آذانٌ لا يَسْمَعُونَ بِها أُولئِكَ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِكَ هُمُ الْغافِلُونَ ‘‘ [اعراف/۱۷۹] اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں۔ اس آیت پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند عالم، بہت سے انسانوں کے مبتلا ہونے کی وجہ کو عدم فہم و آگاہی بیان کر رہا ہے، عدم فہم و شعور، بصیرت کی فقدان کی واضح دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں روایات بھی بہت ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر سب سے صرف نظر کرتے ہوئے مولائے کائنات (علیہ السلام) کی اوپر ذکر شدہ روایت کی جانب توجہ دیتے اور اس پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: اس مختصر مضمون میں ذکر شدہ باتوں، آیت اور روایت سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بصیرت کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے اور خاص کر کہ پر آشوب زمانہ اور حالات میں اس کی نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مكرم، ناشر: دار صادر، سال چاپ: ۱۴۱۴ ه. ق، ج۴، ص۶۴ ۔
[۲]معجم مقاييس اللغه، ابن فارس، احمد بن فارس، ناشر: مكتب الاعلام الاسلامي، چاپ: ۱۴۰۱ ه.ق، ج۱، ص۲۵۴ ۔
[۳]الكافي، كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، ناشر: دار الكتب الإسلامية، چاپ: چهارم، ۱۴۰۷ ق،، ج۸، ص۶۴۔
Add new comment