خلاصہ: خدا نے ہر بچہ کو برائیوں سے پاک اور بے گناہ پیدا کیا ہے، یہ اس کے والدین ہوتے ہیں جو اس کی تربیت کے ذریعہ اسے اس فطرت پر باقی رکھتے ہیں یا بچہ کو خدا کی عطاء کی ہوئی فطرت سے دور کردیتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک بچہ کو اس کے بچپنے سے ہی دینی او راسلامی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، تربیت صرف کھانے پینے اور رہنے کے آداب کی رعایت کا نام نہیں ہے بلکہ تربیت اس کی زندگی کے ہر لمحہ کے لئے ضروری ہے۔
اولاد انسان کی امیدوں اور آرزوں کا نتیجہ ہوا کرتی ہے، اولاد کو انسان کی حیات کا پھل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس زمین پر اس کی نیابت کرتے ہیں، اسی لئے یہ ضروری ہے کہ انسان جس کو اس زمین پر اپنا جانشین بناکر جارہا ہے اس میں کچھ خصوصیات ہونی چاہئے اور یہ خصوصیات صرف اور صرف اس کی اسلامی تربیت کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہیں، جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرمارہے ہیں: «اکرِمُوا أولادَکُم و أحسِنوا آدابَهُم یُغفَرلَکُم[۱] اپنی اولاد کا اکرام کرو اور ان کی اچھے آداب کے ذریعہ تربیت کرو تاکہ تم لوگ بخش دئے جاؤ».
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود والدین اسلامی تربیت سے آشنا ہوں، جانتے ہوں کے کس طرح اولاد کی تربیت کرنی چاہئے اور اگر نہیں جانتے تو انہیں چاہئے کے جو لوگ جانتے ہیں ان کی طرف مراجعہ کریں تاکہ پہلے خود ان کی تربیت ہو اس کے بعد ان کی اولاد کی۔
بچہ جس جگہ پر زندگی گزاررہا ہے جہاں پر اس کی ہر اعتبار سے تربیت ہوتی ہے وہ اس کا گھر ہوتا ہے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ جب اپنی زبان کھولتا ہے تو اپنے والدین یا جو افراد اس کے اطراف میں ہوتے ہیں ان کی طرح گفتگو کرتا ہے یعنی بچہ جس ماحول میں بڑا ہوتا ہے وہ ماحول، وہ طرز گفتگو خود با خود اس کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے چاہے و فکری اعتبار سے ہو یا ثقافتی اعتبار سے، اسی لئے ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر اور اطراف کے ماحول کو اس طرح رکھے جس طرح سے خدا اور معصومین(علیہم السلام) نے رکھنے کا حکم دیا جائے تاکہ ہماری اولاد، معصومین(علیہم السلام) کے نقش قدم پر چلیں اور ہماری بخشش کا سامان مھیا کریں کیونکہ یہی اولاد ہماری بخشش اور عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک بچہ کی شخصیت پر محض اس کے والدین کی تربیت کا اثر نہیں ہوتا بلکہ گھریلو ماحول، ہمسائے، خاندان اور معاشرے میں موجود ہر ایک فرد کے رویے کا اثر بچہ کی ذہنی و فکری نشو نما اور اس کی شخصیت پر پڑتا ہے، ہم میں سے اکثر والدین یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی طرف سے بچہ کی تربیت کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں لیکن اس کی شخصیت پر اثر کرنے والے دیگر عوامل کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کی پرورش یک طرفہ معاملہ نہیں ہے بلکہ بیرونی ماحول بھی اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
نتیجہ:
یہ والدین ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت کے ذریعہ اسے سعادت مند بناتے ہیں یا شیطان کا پیروکار، اسی لئے والدین سے ان کی اولاد کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ ہم نے جو تمہیں نعمت دی تھی تم نے اس کے ساتھ کیا کیا، بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو بےگناہ ہوتا ہے یہ والدین کی تربیت اور ماحول کا اثر ہوتا ہے جو اسے اسلام اور دین سے منحرف کرتا ہے جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: «کُلُّ مُولودِ یولَدُ عَلی الفِطرۀِ حتّی یکونَ اَبَواهُ یُهَوِّدانِهِ و یُنَصِّرانِهِ[۲] ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں».
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۱۰۱، ص۹۵، ۱۴۰۳ق.
[۲] گذشتہ حوالہ، ج۳، ص۲۸۱۔
Add new comment