جب ہم اہل سنت و جماعت کے لفظی استعمالات کو تاریخی لحاظ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت سے نکات کی جانب توجہ کرنی چاہئے؛موجودہ دور میں اہل سنت و جماعت اور دوسرے گروہوں کے درمیان عملی طور پر صدر اسلام کےخلفاء کی تقسیم بندی میں فرق نظر آتا ہے؛ اس طرح سے کہ اہل سنت و جماعت خلفاءکی خلافت کی مشروعیت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں؛جبکہ شیعوں میں سے خاص طور پر امامیہ اور اسماعیلیہ حضرت علی علیہ السلام کو [[رسول اللہ]]کا بلا فصل جانشین سمجھتے ہیں ۔
اہل سنت و الجماعت مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل جماعت کو کہا جاتا ہے؛بطور اختصار انہیں سنی اور اہل سنت بھی کہا جاتا ہے،بنیادی طور پر اہل سنت ان فرقوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جو رسول اللہ کے بعد خلافت کے لئے رسول اللہ کی جانب سے کسی قسم کی نص کے قائل نہیں اور رسول اللہ کے بعد خلیفہ کا تعین مسلمانوں کے اختیار میں ہونے کے قائل ہیں۔
ایران ، عراق ، آذربایجان ، بحرین اور لبنان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں اکثریت اہل سنت کی ہے . اہل سنت کلامی اور فقہی اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں؛ فقہی لحاظ سے حنفی ،شافعی، مالکی اور حنبلی میں تقسیم ہوتے ہیں، حنفی ابو حنیفہ، مالکی مالک بن انس ، شافعی محمد بن ادریس شافعی اور حنبلی احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں.اعتقادی اور کلامی لحاظ سے مختلف فرقوں اشاعره ابوالحسن اشعری، اہل حدیث احمد بن حنبل( سلفی اسی کا ایک حصہ ہیں)، معتزلہ واصل بن عطااور ماتریدیہ ابومنصور ماتریدی سمرقندی کے پیروکاروں میں تقسیم ہیں۔
اصطلاح کی شروعات:اہل سنت لفظ کی شروعات واضح نہیں ہے،غزالی نے فضائح الباطنیہ میں ایک حدیث ِرسول اللہ (ص)کی بنا پر کہا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ رسول(ص) کی زبان سے جاری ہوا ہے؛اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ یہود کے 71 اور نصارا کے 72 گروہ تھے جبکہ میری امت 73 گروہ میں بٹے گی ؛ان میں سے ایک گروہ اہل نجات ہو گا اوردوسرے اہل جہنم ہونگے؛پوچھا گیا کہ وہ کامیاب گروہ کونسا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا :اہل السنہ و الجماعہ؛سوال کیا گیا وہ کونسے ہیں؟ ارشاد فرمایا :جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔[غزالی، فضائح الباطنیہ، ص ۷۷، ۷۸]
منابع:ابو حامد غزالی کی البسیط فی فروع الفقہ اور الوسیط فی فروع المذہب۔رضا برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، کتاب طہ، قم۔
Add new comment