خلاصہ: اس مضمون میں توحید کی پہچان اور شرک و غلو سے بچنے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے، شرک اور غلو جو دونوں باطل راستے ہیں ان کی مذمت قرآن کریم سے واضح کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جن اصول پر اسلام کی دعوت قائم ہے، ان میں سے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی موضوع "توحید" ہے، اور اس کے مدمقابل سب سے زیادہ خطرناک اور باطل مسئلہ "شرک " اور "غلو" ہے۔ توحید کے مسئلہ کو بڑھ چڑھ کر ثابت اور واضح کرنا چاہیے اور شرک و غلو سے فکری اور عملی طور پر بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔
شرک کی مذمت کے بارے میں سورہ حج، آیت ۳۱ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ"، "اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا تو اسے کسی پرندہ نے اچک لیا یا ہوا نے اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دیا"۔
اور غلو کی مذمت کے بارے میں سورہ مائدہ، آیت ۷۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ"، " کہیئے! اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔ اور ان لوگوں کی خواہشات اور ذاتی خیالات کی پیروی نہ کرو جو پہلے خود گمراہ ہو چکے ہیں۔ اور بہت سوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور راہ راست سے بھٹک گئے ہیں"۔
لہذا ولایت تکوینی اور تشریعی اور انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام) کے مقامات اور فضائل کے بارے میں ان دو مسائل پر مکمل توجہ رہنی چاہیے تاکہ توحید سب مراتب میں محفوظ رہے اور مخلوق کو خالق کے رتبہ پر اور خالق کو مخلوق کے رتبہ پر نہ سمجھا جائے کہ انسان شرک و غلو کا شکار نہ ہوجائے۔
دوسری طرف سے تفریط سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اور شرک و غلو سے پرہیز کے نام پر، انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل اور مقامات کا انکار نہیں کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ "ولایت" جو "توحید" سے ہی متعلق ہےاس کا انکار کردیا جائے۔
۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی]
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی]
Add new comment