خلاصہ: دین اسلام کی حقانیت اور جامعیت اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں بھی کسی کا حق ضائع ہورہا ہے اور جو ظلم و ستم کررہا ہے، درحقیقت دین اسلام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دنیابھر میں اتنے مسائل پائے جاتے ہیں۔
لوگوں نے اپنی سوچوں اور خواہشات کے مطابق جتنے دین، مذہب، فرقے اور نظریے بنائے، ان سب میں انسان کی بعض فطری اور حقیقی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا۔ کتنے پیش آنے والے مسائل کا جواب دینے اور مشکلات کا حل نکالنے سے عاجز، کتنے خلافِ فطرت کاموں پر جبر، کتنی بے انصافیوں اور خلافِ عدل کا ارتکاب، کتنے انفرادی، گھریلو اور معاشرتی فسادات کا باعث، کمزور طبقہ کے لوگوں کی کتنی توہین اور مارلوٹ کا سبب، کتنے مالدار، طاقتور اور عہدیدار افراد کے تکبر و غرور کا اچھلنا، کتنے حقداروں کے حقوق کا پامال ہونا، کتنے ظالموں کے ناحق اور ناجائز قبضے، کتنی جان، مال اور ناموسوں کا ضائع ہونا اور انسانی عزت و احترام کا چھِن جانا، ان سب کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام کو چھوڑ کر کسی اور من گھڑت اور بدعت پر مبنی دین کو اختیار کرلیا ہے یا دین اسلام کا نام زبان پر رکھا اور اس ذریعے سے لوگوں کو دھوکہ دے کر لوٹ مار کی، جبکہ درحقیقت ایسے افراد کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
دنیا بھر کے ایسے بھیانک حالات کے تناظر میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی اس حدیث پر عمل کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے جو آپؑ فرماتے ہیں: "الدّینُ یَعْصِم"، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے"۔ [غررالحکم، ح۱]
کیونکہ حقیقی دین اسلام کے احکام و فرامین اس قدر انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں کہ عقل سلیم جب صحیح اصول و ضوابط کے تحت ان احکام کے بارے میں غور و خوض کرے تو ان کے طیب و طاہر اور صحیح ہونے کا اقرار کرتی ہے، بلکہ بعض احکام جن کے ادراک سے عقل غور کے بعد عجز کا اظہار کردیتی ہے تو ان کے صحیح ہونے کا اعتراف کرتی ہے۔ لیکن صحیح ہونے کی حکمت، مصلحت، نفاست، ظرافت اور راز کو نہیں سمجھ پاتی تو اسے اللہ، قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف پلٹا دیتی ہے اور سرتسلیم خم کردیتی ہے کہ جو حکم الٰہی ہو وہی انسان کی حفاظت کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
] غررالحکم، آمدی]
Add new comment