خلاصہ: دین اسلام انسان کی حفاظت کرتا ہے اور دین تب قائم رہتا ہے جب اس کی حفاظت کی جائے، حفاظت کے لئے دین کی پہچان اور معرفت ہونی چاہیے، اہل بیت (علیہم السلام) کیونکہ دین اسلام کی مکمل طور پر معرفت رکھتے ہیں تو دین اسلام کے وہی حقیقی محافظ ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الدّینُ یَعْصِم"، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے"۔ [غررالحکم، ح۱]۔ سوال یہ ہے کہ دین کیسے انسان کو محفوظ کرتا ہے؟ اس تحفظ کا ایک بنیادی رُخ یہ ہے کہ ان پاک و پاکیزہ ہستیوں نے ہر حال میں اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرنے اور احکام الٰہی کو جامہ عمل پہنانے کے لئے انتھک محنتیں کیں، چاہے اپنے گھر میں، یا مسجد و منبر پر، یا گلی و بازار میں، یا صلح و جنگ میں، ان کی ساری کوشش یہ تھی کہ اللہ کا دین جو دین اسلام ہے وہ محفوظ رہے، ہر گھر، ہر ملک، ہر قوم اور مستقبل میں آنے والی سب نسلوں تک دین اسلام پہنچ جائے، ہر معاشرے پر اسلام چھا جائے اور ہر فرد دین اسلام کے عین مطابق عمل کرے، ان بلند رتبہ حضراتؑ کی یہ جدّوجہد اس قدر زیادہ اور ہمت اس قدر بلند رہی کہ انہوں نے اپنی پوری طاقت دین کی حفاظت پر لگائی۔
اسلام کے دشمنوں کی حددرجہ دشمنی سے دین اگرچہ انتہائی نازک مراحل تک پہنچ گیا مگر ان اہل بیت (علیہم السلام) نے دین اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے دین کو مٹنے نہ دیا اگرچہ ان کو طرح طرح کے ظلم و ستم سہنے پڑے، ایسے ظلم و ستم جن کی حقیقت کی تہوں تک تاریخ میں کوئی مظلوم، ظلم سہنے کے بعد بھی نہ پہنچ سکا اور بالآخر ان پاک ہستیوں نے اپنی جان بھی اللہ کی راہ میں پیش کردی، مگر دین اسلام کا تحفظ اور لوگوں کی ہدایت اپنی آخری سانس تک کرتے رہے اور منصب خلافت، عَلَمِ ہدایت، اور عہدۂ حفاظت اپنے بعد والےامامؑ کے سپرد کردیا، یہ سلسلہ ہر معصومؑ سے دوسرے معصومؑ تک منتقل ہوتا رہا، یہاں تک کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے یہ ذمہ داریاں اپنے کمسن بیٹے اور آخری امام، حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کو سونپ دیں۔ اِ س وقت حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) دین اسلام کے حقیقی محافظ ہیں، اس تحفظ کا ایک اہم حصہ، آپؑ کے عام نائبین کے ذریعے سرانجام پارہا ہے، وہ عام نائبین جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
] غررالحکم، آمدی]
Add new comment