خلاصہ: صرف دین ہی انسان کے تمام مسائل کا حل پیش کرسکتا ہے اور اسے سعادت تک پہنچا سکتا ہے جو دین اسلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتب اور اپنے مقرر کردہ انبیاء اور اوصیاء (علیہم السلام) کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا ہے۔
اگر کہا جائے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام مسائل کے لئے مکمل تدبیر کرسکتا ہے اور انسان کی سوچ، زندگی کے سب فائدوں اور نقصانات پر احاطہ کرسکتی ہے تو تجربات اس بات کی نفی کرتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کو جو مسائل بالکل سادہ اور آسان محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی لوگوں کا آپس میں بہت سارا اختلاف ہوتا ہے، مثلاً خوش نصیبی اور سعادت کیا ہے؟ اور کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کون سی چیز اسے دنیا کی ذلت اور آخرت کی ہلاکت سے بچاسکتی ہے؟
ادھر سے انسان معاشرتی زندگی میں بہت ساری مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتا ہے اور ایسی زندگی میں وہ اکیلا، اپنی سعادت کے بارے میں غور اور عمل نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کی سعادت، اہداف، نفع و نقصان کے معیار، طریقہ کار اور وسائل، دوسرے لوگوں کی سعادت، اہداف، نفع و نقصان کے معیار، طریقہ کار اور وسائل سے ملے جلے ہوئے ہیں اور ان پر تقابلی اثر رکھتے ہیں۔
ان انفرادی اور معاشرتی مسائل کی لاعلمی کے علاوہ انسان کا ایک اور مسئلہ سے بھی سامنا ہے جو یہ ہے کہ انسان اپنے راستے کی انتہا سے بے خبر ہے، کیونکہ جس عقل سے انسان تدبیر کرنے کا دعویدار ہے اس عقل سے آخرت کی زندگی اور ابدی حیات کا کسی کی ہدایت کے بغیر ادراک نہیں کرسکتا لہذا اپنی خوش نصیبی بارے میں اپنی عقل سے خود تدبیر کرنے سے عاجز و ناتواں ہے۔
اور پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ دنیاوی اور آخرت کی زندگی کا آپس میں اس قدر گہرا تعلق ہے کہ وہاں کی سعادت صرف یہاں کی جدوجہد سے میسر ہوسکتی ہے، اس کی مثال دنیا میں انسان کی جسمانی اور روحانی زندگی کی طرح ہے کہ جسم اور روح کا ایک دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں اب حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی یہ حدیث مزید سمجھ میں آتی ہے جو آپؑ نے فرمایا:"الدّینُ یَعْصِم"، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے"۔ [غررالحکم، ح۱]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غررالحکم و دررالحکم، آمدی]
Add new comment