انبیا٫
خداوند متعال نے اس طرح فرشتوں کو سمجھا دیا کہ خاکی موجود میں سیکھنے اور ترقی و کمال کی توانائی موجود ہے اور فرشتوں کی خلقت چونکہ مٹی سے نہیں ہوئی ہے ان میں یہ توانائی ، صلاحیت اور قابلیت موجود نہیں ہے ، نتیجتا فرشتوں نے بھی اس بات کا اعتراف و اقرار کیا کہ وہ حضرت ادم علیہ السلام کے برابر نہیں ہیں
ہم نے اس سے پہلے اشارہ کیا کہ جب خداوند متعال نے فرشتوں کو با خبر کیا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ معین کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ معین کرے گا جو خون اور خونریزی برپا کرے ؟
«وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ» ﴿۳۰﴾
قران کریم نے سورہ یوسف کو احسن القصص کے طور پر پیش کیا ہے " نحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ؛ (اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھے " (۱) اور اس میں موجود دا
امیر المومنین(ع) اپنے دور خلافت میں جب مدائن پہنچے- جو بغداد کے قریب ہے اور انوشیروان کا پرانا محل یعنی قصرِ مدائن وہاں موجود تھا -تو اس محل کے اندر جا کر اسے دیکھا۔
چین:
جیسا کہ ہم نے اپنی گذشتہ میں تحریر میں عرض کیا تھا کہ سبھی امتوں میں پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں اور اب ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر کچھ کی معرفی کر رہے ہیں :
خلاصہ: فرقہ واریت اور مختلف گروپ میں بٹ جانے سے پرہیز کرنی چاہیے، کیونکہ اختلاف ڈالتے ہوئے معاشرے کو مختلف گروہوں میں بانٹ دینا، فرعونی سیاست کی مکّاری ہے۔
خلاصہ: فرعون اور قارون کے برے انجام سے عبرت لینی چاہیے۔ جب ان پر عذاب الٰہی آیا تو نہ فرعون کو اس کا تکبر اور طاقت بچا سکی اور نہ قارون کو اس کا مال بچا سکا۔
خلاصہ: سورہ قصص کی چوتھی آیت کی روشنی میں فرعون کے تین برے صفات بیان کیے جارہے ہیں۔