خلاصہ: فرعون اور قارون کے برے انجام سے عبرت لینی چاہیے۔ جب ان پر عذاب الٰہی آیا تو نہ فرعون کو اس کا تکبر اور طاقت بچا سکی اور نہ قارون کو اس کا مال بچا سکا۔
خوش نصیبی اور بدبختی کیا ہے؟ کیا جس آدمی کے پاس مال و دولت ہو، تا کہ جو لذت لینا چاہے لے سکے وہ خوش نصیب ہے اور بدبخت وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو؟!
قارون اتنا مالدار ہونے کے باوجود خود اور اس کی اتنی دولت زمین میں دھنس گئی۔ سورہ قصص کی آیت ۸۱ میں ارشاد الٰہی ہے: "فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ"، "پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور نہ کوئی گروہ خدا کے علاوہ بچانے والا پیدا ہوا اور نہ وہ خود اپنا بچاؤ کرنے والا تھا"۔
جو دنیاوی زندگی کے طلبگار لوگ، قارون کے مال و دولت کو دیکھ کر کہتے تھے کہ کاش قارون کی طرح ہمیں بھی دولت ملتی تو جب انہوں نے قارون کا یہ برا انجام دیکھا تو اپنی اس تمنا کے غلط ہونے کا اقرار کرلیا۔ سورہ قصص کی آیت ۸۲ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ"، "اور وہ لوگ جو کل اس کے جاہ و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے اب کہنے لگے افسوس (اب پتہ چلا) کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر (تنگدست بنا کر) احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا اور کافر کبھی فلاح نہیں پاتے"۔
وہ فرعون جو زمین پر تکبر کرتا تھا، ربّ اعلی ہونے کا دعویدار تھا اور اس نے زمین پر اختلاف اور فساد پھیلایا ہوا تھا، وہ اپنے ساتھیوں سمیت دریا میں غرق ہوگیا۔ سورہ اسراء کی آیت ۱۰۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعاً"، "اس (فرعون) نے ارادہ کیا کہ وہ (موسیٰ اور بنی اسرائیل) کو اس سر زمین سے نکال باہر کرے لیکن ہم نے اسے اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کر دیا"۔
اگلی آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفاً"، "اور اس (واقعہ) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس سر زمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم (سب) کو (اپنے حضور) سمیٹ لائیں گے"۔
* پہلی آیت کا ترجمہ از: مولانا ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ۔
* باقی آیات کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment