فرعون کے تین برے صفات

Mon, 04/06/2020 - 00:23

خلاصہ: سورہ قصص کی چوتھی آیت کی روشنی میں فرعون کے تین برے صفات بیان کیے جارہے ہیں۔

فرعون کے تین برے صفات

قرآن کے تعلیمی طریقوں میں سے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ سابقہ اقوام کے درس آموز قصّوں کو بیان فرماتا ہے تا کہ لوگ ان کے اچھے کردار کو اپنائیں اور ان کی غلطیوں سے پرہیز کریں۔ قرآن کریم میں سب سے زیادہ جو قصہ بیان ہوا ہے بنی اسرائیل کا قصہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تفصیلی بیانات میں سے ایک، سورہ قصص میں ہے۔ اس سورہ کی چوتھی آیت یہ ہے جس میں فرعون کے صفات بیان فرمائے ہیں: "إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ"، "بےشک فرعون زمین (مصر) میں سرکش ہوگیا تھا اور اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس نے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور بنا رکھا تھا (چنانچہ) ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں (لڑکیوں) کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بےشک وہ (زمین میں) فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا"۔
پہلی صفت: "إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ"، "بےشک فرعون زمین (مصر) میں سرکش ہوگیا تھا"۔
دوسری صفت: " وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ"، " اور اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس نے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور بنا رکھا تھا"۔
تیسری صفت آیت کی آخر میں ہے: "إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ"، "بےشک وہ (زمین میں) فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا"۔
لہذا یہاں سے فرعون کے تین صفات ماخوذ ہوتے ہیں: فوقیت پسندی، لوگوں کے درمیان اختلاف ڈالنا اور فسادی ہونا۔
فوقیت پسندی: یہ نفسانی حالت اور خاص طرح کی ذہنی حالت ہے جس کا آدمی شکار ہوسکتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حالت، گمراہی، ہلاکت اور بدبختی کی ابتدا ہے۔
لوگوں میں اختلاف ڈالنا: بایں معنی کہ آدمی ایک گروہ کو کمزور اور ذلیل و خوار کردے اور دوسرے گروہ کو ترجیح دے۔
جب ان دو صفات کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ پہلی صفت، اِس دوسری صفت کو جنم دیتی ہے۔ یعنی اس اندرونی اور ذہنی حالت کی بنیاد پر جو شخص دوسروں سے بہتر اور برتر ہونا چاہتا ہے تو وہ ایسا کردار اختیار کرتا ہے اور ایسا انتظام کرتا ہے کہ اس مقصد تک پہنچ جائے، لہذا لوگوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی جڑ فوقیت پسندی اور برتری پسندی ہے۔ وہ پہلی صفت نفسانی صفت ہے اگرچہ آدمی میں ظاہر نہ ہوئی ہو، اور یہ دوسری صفت معاشرتی کردار ہے جس کی واضح شکل لوگوں میں اختلاف ڈالنا ہے۔
یہ اس کردار کا ایک نفسیاتی تجزیہ ہے جو کردار، بدبختی اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* مطالب ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی، عوامل ترقی و انحطاط انسان، جلسه چهارم۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 92