خداوند متعال نے حضرت ادم علیہ السلام کے جسم کو بنایا ، پھر خود سے منسوب روح اس میں پھونکی اور انحضرت کو مکمل انسان کا پیکر عطا کیا «فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ» (۱) پھر میں جب اس کے (ظاہری پیکرِبشری کو) مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دوں تو سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا ۔ ایات قران کریم سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ادم علیہ السلام اپنی خلقت کی ابتداء میں مٹی تھے «فَإِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ تُرَابٍ ؛ یقینا ہم نے ہی تمہیں پہلے خاک سے بنایا ہے» (۲)، اس میں پانی ڈال کر گھوندھا اور وہ گیلی مٹی (گارے) کی شکل میں ڈھل گئی «هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ؛ (اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا» (۳) پھر اس کے بعد دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیرہوکرسیاہ بو دار ہوگئی « وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ؛ (۴) اور ہم نے انسان کوسیاہی مائل نرم مٹی سے پیدا کیا ہے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگی تھی» پھر وہ مٹی لسدار ہوگئی «إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لاَزِبٍ ؛ (۵) ہم نے ان سب کو ایک لسدار مٹی سے پیدا کیا ہے» پھر اس کے بعد سوکھی مٹی کی شکل اختیار کرگئی «خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ؛ (۶) اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے» ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے اور حضرت ادم علیہ السلام کا مجسمہ امادہ ہونے کے بعد خداوند متعال نے اس میں اپنی روح پھونک دی «وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي ؛ اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دی» ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ حجر ، ایت ۲۹ ۔
۲: قران کریم ، سورہ حج ، ایت ۵ ۔
۳: قران کریم ، سورہ انعام ، ایت ۲ ۔
۴: قران کریم ، سورہ حجر ، ایت ۲۶ ۔
۵: قران کریم ، سورہ صافات ، ایت ۱۱ ۔
۶: قران کریم ، سورہ الرحمن ، ایت ۱۴ ۔
Add new comment