انبیا٫
ہر نبی نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی طرف دعوت دی ان میں سے کچھ لوگ ان پر ایمان لاتے اور کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اس نبی کے خلاف محاذ آرائی کیا کرتے تھے؛ اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے ہر نبی کے دوسرے انبیا کے ساتھ کچھ مشترکہ وسائل اور ذرائع ہوا کرتے تھے جبکہ ہر نبی کے پاس اپنی قوم کی ہدایت کے لئے انہیں کے حالات کے مطابق وسائل اور طور طریقے الگ الگ بھی ہوتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے مختلف طور طریقوں میں سے انذار، تبشیر، آگاہ کرنا، روشن بیانی اور معجزہ دیکھانا تھا۔ لیکن قوم مدین کی اکثریت تعداد نے ان کی مختلف طریقوں سے مخالفت کرتے ہوئے مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو سنگسار اور رجم کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
خلاصہ: حضرت شعیب کی قوم جو اہل مدین اور اصحاب الایکہ تھی، انہوں نے آنحضرت کی مختلف طریقوں سے نافرمانی کی اور جب ان کی نافرمانی آخری حد تک پہنچ گئی تو ان پر عذاب نازل ہوگیا۔
موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی حاکموں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اور پھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے،لہذا ہمیں ہر وقت موت جیسی حقیقت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں حضوری کے لئے تیار رہنا چاہئے۔-
حضرت ابراہیم ؑ ایک طویل عرصہ تک اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے کیونکہ آپ کی بیوی حضرت سارہ ؓبانجھ اور حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں اولاد کی کمی پوری کرنے سے قاصر تھیں، آخر حضرت"ھاجر" کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کی کمی پوری ہوئی اور اللہ تعالی نے انہیں حضرت اسماعیل ؑ سے نوازا ۔ ایسی صورتحال میں حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے بیٹے کے ساتھ محبت واشتیاق میں ایک خاص قسم کی جھلک نمودار ہوتی تھی، کیونکہ آپ کئی سالوں کے انتظار کے بعد صاحبِ اولاد ہوئے تھے، حضرت اسماعیل ؑ بھی باپ کی ایسی خاص محبت وشفقت کے سائے میں پروان چرھنے لگے پھر اچانک خداوند کی طرف سے حکم ملا کہ اے ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو خدا کی راہ میں ذبح کرو۔
چکیده: موت ایک ایسی حقیقت ہے جو آ کے رہے گی پس عقل مند انسان وہ جو اس کے لیے خود کو آمادہ اور تیار رہے ۔ حضرت سلیمان جیسے نبی جو کہ پوری کائنات پر حکومت کرتے تھے ایک دن ان کو بھی موت کا سامنا کرنا پڑا۔