امیر المومنین(ع) اپنے دور خلافت میں جب مدائن پہنچے- جو بغداد کے قریب ہے اور انوشیروان کا پرانا محل یعنی قصرِ مدائن وہاں موجود تھا -تو اس محل کے اندر جا کر اسے دیکھا۔
قرآن کریم کے مطابق دنیا کی ابتداء سے ہمیشہ صالحین اور اہل حق کے گروہ اور باطل کے گروہ کے درمیان مسلسل جنگ ہوتی رہی ہے، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ، محمدصلوات اللہ علیہم اور ان کے مؤمن گروہوں کے کے ساتھ نمرود و فرعون، ظالم یہودیوں اور ابوسفیان جیسوں کے درمیان مسلسل جنگ ہوتی رہی ہے؛ ہر فرعون کے مدِّ مقابل کوئی نہ کوئی موسیٰ اٹھ کھڑا ہوتا تھا«لِکُلِّ فرْعَوْنَ مُوسیٰ»... ان لڑائیوں میں کبھی حق اور کبھی باطل کی فتح ہوئی ہے، لیکن یقیناً ان فتوحات اور شکستوں کا انحصار سماجی، معاشی اور اخلاقی عوامل سے وابستہ ہے۔([1])
قرآن اور تاریخ کی عبرتیں
* قرآن کریم کم از کم اپنی تعلیمات اور عبرت آموزی کے ایک حصے میں قبائل اور قوموں کی زندگیوں کو دوسرے قبائل اور قوموں کے لیے عبرتوں کے طور پر متعارف کراتا ہے:
﴿تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾([2]) ؛ یہ قوم تھی جو گزر گئی انہیں وہ ملے گا جو انہوں نے کمایا اور تمہیں وہ ملے گا جو تم کماؤ گے تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ ہوگا۔ (تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو)۔([3])
قرآن اور تاریخ
*قرآن میں انبیاء(ع)کے قصے اور تاریخی اسباق و عبرتیں ہیں، کیوں اور کس لیے؟
کیونکہ انسان نصیحت حاصل کرے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ کیا کرنا ہے، درحقیقت قرآن تاریخ کو انسانی تجربہ گاہ کے طور پر یاد کرتا ہے۔ ([4])
* بنیادی طور پر یہ جو قرآن تاریخ کو ایک سبق اور مایۂ عبرت سمجھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کو ایک قطعی سنّت اور علّت و معلول کے قوانین کے مطابق سمجھتا ہے اور بہت سی آیات میں یہ بات کہ قوموں پر نیک و بد میں سے کیا گزری ہے وہ ایک الٰہی سنّت تھی جس کی قرآن تفصیل بیان کرتا ہے۔([5])
* قرآن پاک میں انسانی تاریخ پر اور یہ کہ انسانی تاریخ بعض روایات و سُنَن کی پیروی کرتی ہے ایک عجیب اصرار اور تاکید موجود ہے۔لیکن قرآن کے بیان میں دوسروں کے بیانات کے مقابلے میں ایک منطقی فرق ہے، اور وہ یہ ہے کہ دوسرے یا تو توجہ نہیں دیتے یا اس بات اور اس نکتے پر کم توجہ دیتے ہیں کہ "اخلاقی فساد قوموں کی تقدیر اور سعادت میں کارگر ہوتا ہے"۔([6])
*قرآن میں قوم ثمود یا عاد یا اصحاب الرقیم وغیرہ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ پہلے خرافات میں گھل مل گیا تھا لیکن بعد میں دریافتوں نے قرآن کی رائے کی تصدیق کردی۔([7])
تاریخی آثار
*امیر المومنین(ع) اپنے دور خلافت میں جب مدائن پہنچے- جو بغداد کے قریب ہے اور انوشیروان کا پرانا محل یعنی قصرِ مدائن وہاں موجود تھا -تو اس محل کے اندر جا کر اسے دیکھا۔([8])
* ایک مورخ جو آج سو سال ہزار سال پہلے کے تاریخی واقعات کی چھان بین کرنا چاہتا ہےتو وہ دیکھتا ہے ہے کہ وہ چیزیں اب موجود نہیں ہیں۔ تاریخ، طبیعی علوم سے اس قدر مختلف ہے کہ طبیعی علوم میں علم کا موضوع ایک موجود اور قابل مشاہدہ و تجربہ و آزمائش کے لائق کچھ چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن مؤرخ ایسے واقعات پر بحث کرنا چاہتا ہے جن کا کوئی وجود نہیں ہوتاجس کا ماضی سے تعلق ہوتا ہے اور اسےپَرکھا نہیں جاسکتا، اب وہ نہیں ہے تو اسے کیسے دریافت کرے گا؟ اس کا ایک طریقہ آثار ہے یعنی بچی کھچی چیزوں کو دیکھے اور پَرکھے، قابل مشاہدہ بچی ہوئی چیزوں کو دیکھے جو ماضی کی یادگار کے طور پر باقی بچی ہیں جیسے عمارتیں، اور پھر اس کا زیادہ عام طریقہ یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کے اقتباسات پر انحصار کیا جائے اور ان کے بیانات کو منبع و مصدر بنایا جائے اور لوگوں کی نقل کی گئی باتوں پر بھروسہ جَتایا جائے، کچھ ایسے منقولات جنھیں " آثار کے ناقلین اور اخبار کی روایت کرنے والے ، میٹھی میٹھی باتیں کرنے والے اور مٹھے بول بولنے والوں کی باتوں پر اعتماد کیا کائے' جسے انھوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ باقی بچے آثار کے پاس تو زبان ہے نہیں لہٰذا اس میدان میں تلاش و کوشش کرنے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں بچتا۔یقیناً، یہ اپنے آپ میں ایک صحیح اور مناسب طریقہ ہے؛ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کی تہذیبوں کے آثار کا مطالعہ کرنے سےبہت سی چیزیں سمجھ میں آجاتی ہیں اور [آثار] کئی اعتبار سے کتابوں میں درج اور لکھے گئے بیانات سے زیادہ مستند ہیں۔([9])
*وہ آیتیں جو قوموں کے لیے سنّت اور قانون کی قائل ہیں۔
...ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات میں امّتوں کے لیے سنّت کا ذکر ہوا ہے کہ اقوام و ملل کی کچھ سنّتیں تھیں یعنی اقوام کے کچھ سُنَن و قواعد و قوانین ہیں اور یہ سنّتیں لایتخلف اور ناقابل تبدیل ہیں اور تمام مقامات پر یہ جاری و ساری ہیں:اگر ایسا ہو گا تو ایسا ہو جائے گا، اگر یوں ہوگا تو ایسا ہو گا۔ قبائل کے بارے میں ہماری سنّتیں بھی کسی طرح تبدیل نہیں ہوتیں۔ قوموں کے بارے میں ہماری سنّتیں متعین اور ثابت ہیں جو بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ قرآن قوموں کو ایک شخصیت دیتا ہے۔
قرآن کی مشہور آیت جو کہ ایک عجیب آیت ہے اور اس میں بہت سے نکات ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہتی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١﴾([10]) ؛(اس آیت کے تمام پہلوؤں پر بحث کرنا ابھی مقصود نہیں ہے) خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود (اپنی شخصیت کو، اپنے وجود کو، اپنے اخلاق کو، اپنے کردار کو) کو تبدیل نہ کرلے ...۔
بحث پوری قوم کے بارے میں ہے نہ کہ کسی خاص فرد کے بارے میں ، اس کے علاوہ﴿يُغَيِّرُوْا﴾ کو خود قوم کی طرف منسوب کیا گیا ہےنہ کہ قوم میں سے کسی ایک فرد کی طرف۔ مثال کے طور پر، وہ قرآنی آیت ارشاد فرما سکتی تھی: (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُ رَجُلٌ مِنْھُمْ بِاَنْفُسِهِمْ١) لیکن فرمایا: ﴿حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١﴾ اس کا مطلب معاشرے کی تقدیر تبھی بدل سکتی ہے جب معاشرہ خود (نہ کہ ایک اکیلا کوئی فرد اپنے دَم پر، فرد صرف اس کام کے لیے ایک پیش خیمہ ہو سکتا ہے) اپنے اندر سے ایک تحریک پیدا کرے اور اپنے وجود کے اندر ایک انقلاب برپا کرے۔
چنانچہ یہ آیت خود اپنے آپ میں حکم کا رُخ معاشرے کی طرف موڑتی ہے کہ معاشرے کی تقدیر معاشرہ ہی بدلتا ہے۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ بحث معاشرے کی تقدیر کے بارے میں ہے، اس لیے اس کا بدلنا بھی خود اس کے ہی اپنے ہی ہاتھوں میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے:﴿حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١﴾۔([11])
*﴿كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ﴾۔([12])،یہ آیت کچھ دوسری آیتوں کے بیانات کی ہی مزید وضاحت پیش کرتی ہےجیسا کہ تفسیرِ المیزان میں اس موقع پر جبر و اختیار کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ خدا کا ارشاد ہے ،ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے ، ہم نے ہر قوم کو ان کی نظروں میں ان کے اعمال کو خوبصورت بنادیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر قوم کے سوچنے کا ایک خاص انداز ہے، ایک خاص پسند، ایک خاص ذائقہ ہے جو اس کے اپنے کام کو خود اس کی نظروں خوبصورت لگتا ہے؛ یعنی ان کے آداب ہیں، ان کی رسومات ہیں، ان کا سوچنے کا طریقہ ہے، ان کا ذوق ہے اور ان کا اپنا وہی کام ان کے لیے خوشنما اور خوبصورت محسوس ہوتا ہے۔ سارا حساب کتاب... امت کے سماجی ذوق کا حساب کتاب ہے، سماجی فکر کا حساب کتاب ہے، کسی کمیونٹی یا سماج کے طرز فکر کا حساب کتاب ہے مختلف معاشروں اور سماج کے نتائج اخذ کرنے کا حساب کتاب ہے کیونکہ معاشروں کے تصورات اور نتائج اخذ کرنے کا طریقۂ کار ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک معاشرہ ایک چیز کو اچھا سمجھتا ہے، دوسرا معاشرہ بالکل اسی چیز کو برا سمجھتا ہے، ایک چیز ایک کی نظر میں بری اور دوسری کی نظر میں اچھی ہے۔ معاشروں کی سوچ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور الگ ہوتی ہے۔([13])
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مأخذ
([1]) قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 24، ص 432۔
([2]) بقرہ (2): 134-141۔
([3]) قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 24، ص 409۔
([4]) یادداشتھای شہید مطہری، ج 8، ص 413۔
([5]) یادداشتھای شہید مطہری، ج 8، ص 413۔
([6]) خاتمیت، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 29، ص 543۔
([7]) یادداشتھای شہید مطہری، ج 8، ص 380۔
([8]) سیری در سیرہ نبوی، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 16، ص 91۔
([9]) فلسفہ تاریخ (1-4) مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 15، ص 117۔
([10]) رعد (13): 11۔
([11]) فلسفہ تاریخ (1-4) مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 15، ص 786۔
([12]) انعام (6): 108۔
([13]) فلسفہ تاریخ (1-4) مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 15، ص 788۔
Add new comment