خلاصہ: فرقہ واریت اور مختلف گروپ میں بٹ جانے سے پرہیز کرنی چاہیے، کیونکہ اختلاف ڈالتے ہوئے معاشرے کو مختلف گروہوں میں بانٹ دینا، فرعونی سیاست کی مکّاری ہے۔
جب حضرت موسی (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو فرعون کے پاس آئے اور فرمایا: "میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں" اورآپؑ نے اسے فرمایا: "فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ"، (۱) "پس تو بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) میرے ساتھ بھیج دے"۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام اسحاق (علیہ السلام) تھا، ان کے ایک بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) تھا، یعقوب (علیہ السلام) کا ایک لقب اسرائیل تھا، گویا وہ شام کی سرزمینوں میں رہتے تھے، لہذا بنی اسرائیل یعنی یعقوبؑ کی اولاد۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ۱۲ بیٹے تھے۔ وہ تقریباً خیمہ نشیں تھے اور ان کی متمدن اور شہری زندگی نہیں تھی۔ وہی زندگی جاری رہی یہاں تک کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ پیش آیا۔ بالآخر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمتوں کی وجہ سے عزیز مصر نے آپؑ سے فرمایا: اپنے والد کو یہاں پر لائیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ۵۰، ۶۰ ، افراد تھے، وہ شام سے مصر آئے۔عزیز مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے محبت کی وجہ سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو بہت اچھی جگہ پر رہنے کا کہا اور ان کے لئے اخراجات مقرر کردیئے۔
اُس وقت کے عزیز مصر، حضرت موسی (علیہ السلام) کے زمانے کے فرعونوں کی طرح نہیں تھے، انہیں اپنی حکومت اور خوشی مطلوب تھی اور لوگوں کے دین و مذہب سے سروکار نہیں تھا، اسی لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) اگرچہ پیغمبر اور موحّد تھے اور مصریوں کے مذہب پر اور ان کے قوم و قبیلہ میں سے نہیں تھے، پھر بھی عزیز مصر آپؑ کی بے احترامی نہیں کرتا تھا اور حتی آپؑ کے والدین اور گھرانے کا احترام کرتا تھا۔ بہرحال یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد مہاجر تھی جو مصر میں پناہ لے چکی تھی۔ بنی اسرائیل حضرت موسی (علیہ السلام) کے زمانے تک مصر میں رہے، یعنی ہجرت سے تقریباً چھ صدیاں بعد تک۔ اس عرصے میں مصر کے حکمران کئی بار تبدیل ہوئے، یہاں تک کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کے زمانے میں ایک اصیل مصری جس میں بہت فرعونیت پائی جاتی تھی وہ یہ سوچنے لگا کہ سب پر مسلط ہوجائے اور سب کو اپنا ماتحت بنالے اور وہ صرف معاشی اور سیاسی لحاظ سے ہی اس کے تابعدار نہ ہوں، بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی اس کی تابعداری اور پرستش کریں، اسی لیے اس نے کہا: "أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ"، یہ بات کسی اور فرعون نے نہیں کی تھی، صرف یہی فرعون تھا جو اِس تکبر، جہالت اور خودپرستی کا شکار ہوا تھا۔ لہذا اپنے اس پرانے آرزو تک پہنچنے کے لئے منصوبہ بنایا۔
اس زمانے میں مصر کی آبادی چند ملین افراد تھی جن میں سے بنی اسرائیل کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ تھی۔ پہلی بات جو فرعون نے سوچی یہ تھی کہ اگر یہ سب لوگ اس کے خلاف متّحد ہوجائیں تو وہ کچھ نہیں کرپائے گا تو اس نے انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا۔ اس نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم یہاں مہمان تھے، تمہارا احترام کیا گیا اور تمہیں گھربار دیا گیا تو تم لوگ یہاں ہو تو ہمارے غلام ہو، تمہیں کام کرنا چاہیے تاکہ ہم تم سے فائدہ حاصل کریں۔ حضرت موسی (علیہ السلام) نے فرعون سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کوہمارے ساتھ بھیجو "أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ"،(۲) "جب کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے"۔ لیکن فرعون نے کہا: نہیں، ہم نے سالہا سال ان کے اخراجات دیئے ہیں، وہ ہمارے ملک میں رہے ہیں، ہم مصری ہیں اور آپ عبری ہیں!
فرعون نے پہلے ان باتوں کو پھیلانے سے کہ تم بنی اسرائیل غیرملکی اور ہمارے غلام ہو اور تمہارا دین کا ہمارے دین سے فرق ہے، ایسی باتوں سے بنی اسرائیل اور مصریوں کے درمیان اختلاف ڈال دیا اور پھر مصریوں کا آپس میں معاشیاتی اور قوم و قبیلہ کے لحاظ سے اختلاف ڈال دیا، جب اس نے اختلاف ڈال لیا تو اس نے کوشش کی کہ جو لوگ سوچ اور معاشرتی طاقت کے لحاظ سے اس کی مدد کریں ان کو اعلی مقام پر رکھے۔
اگر ہم فرعونی سیاست کا شکار نہ ہونا چاہیں تو ہماری توجہ رہنی چاہیے کہ ہم فرقہ واریت اور گروپ گروپ بننے کے دھوکہ میں نہ پھنس جائیں۔
*(۱) سورہ اعراف، آیت ۱۰۵۔
*(۱) سورہ شعراء، آیت ۲۲۔
* اصل مطالب ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی، عوامل ترقی و انحطاط انسان، جلسه چهارم۔
Add new comment