سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: چھٹے پارے کا مختصر جائزہ

Sat, 05/11/2019 - 20:18

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے چھٹے پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

پانچویں پارہ کے آخر میں منافقوں کی مذ مت تھی اور انہیں سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی تھی ، اس لئے چھٹے پارے کے شروع میں یہ بتایا گیا کہ الله بری باتوں کے اظہار کو پسند نہیں کرتا مگریہ کہ ظلم ہواہو تو ظالم کے خلاف اپنے حق و انصاف کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے،اس کے علا وہ جو اہم مضامین اس پارے میں مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں:ا۔ منافقین کی مذمت کے بعد یہود کے جرائم کا تذکرہ ہے اس لئے کہ کفر و ضلال میں وہ بھی منافقین کے بھائی تھے، ان کے جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کوقتل کر نے کا ارادہ کیا لیکن اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور انہیں باعزت طریقے سے آسمان پر اٹھالیا۔۲۔ یہود کے بعد اہل کتاب کے دوسرے گروہ یعنی نصاریٰ کا تذکرہ ہے، جن کا ایک انتہائی غلط عقیدہ یہ تھا کہ خدا ایک نہیں بلکہ تین اقسام سے مرکب ہے یعنی باپ ، بیٹا اور روح القد س، نصاری کو سمجھایا گیا کہ تم اپنے دین میں غلونه کرو اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے اصل مقام سے نہ بڑھاؤاور یہ مت کہو کہ خدا تین ہیں؛ پھر جبکہ خود حضرت عیسی علیہ السلام الله کے سامنے عاجزی اور عبودیت میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتے بلکہ عزت محسوس کرتے ہیں تو تم کون ہوحضرت عیسی علیہ السلام کوخد ٹھہرانے والے۔۳۔ سورۂ نساء کے اختتام پر دوبارہ اس مضمون کا اعادہ ہے جو اس سورت کے شروع میں بیان ہوا تھا یعنی عورتوں کے معاملے کی رعایت او رقریبی ورثاء کے حقوق کا خیال ۔
سورة المائدہ: یہ مدنی سورت ہے اور اس میں ایک سو بیس آیات ہیں، یہ سورت ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی ، اس سورت میں حلال و حرام کے متعد دا حکام بیان کئے گئے ہیں ، اس سورت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں وہ آیت کریمہ بھی ہے جو غدیر خم کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ پر نازل ہوئی، اس آیت میں اعلان ولایت امیرالمؤمنینؑ کے بعد تکمیل دین کا اعلان کیا گیا ہے ، اس سورت کا جو حصہ چھٹے پارے میں آیا ہے اس میں جو اہم مضا مین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:۱۔ اس سورت کی ابتداء میں اہل ایمان کو ہر جائز عہد اور عقد کے پورا کر نے کا حکم دیا گیا ہے ، خواہ و ہ عہد و عقد انسان اور رب کے درمیان ہو یا انسان اور دوسرے انسان کے درمیان ہو۔۲۔ کھانے پینے کی بہت ساری ایسی چیزوں کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے جنہیں زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ان چیزوں کے کھانے میں صحت و جسم کا بھی نقصان ہے اور فکر و نظر اور دین و اخلاق کا بھی نقصان ہے ۔مثلا: مردار، خون ،خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے ، ان نجس چیزوں کے علاوہ باقی طیبات اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قراردیاگیاہے۔۔۳۔ حلال اور حرام بیان کے بعد الله نے مسلمانوں پر اپنے اس فضل وانعام کا ذکر کیا ہے ۔۴۔ اس پارے کے ساتویں رکوع میں یہود کی بزدلی ان کے فتنہ و فساد ، سرکشی اور تکبر کا بیان ہے اور ان اوصاف کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ان خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچا کر رکھیں، یہود کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کے احوال بھی بتلائے گئے ہیں ، ان سے بھی اللہ کے کاموں پر قائم رہنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اللہ کے عہد کوتو ڑ دیا جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں میں بغض و عداوت ڈال دی، با و جو د یکہ یہ دونوں گر وہ بہت ساری اعتقادی ، عملی اور اخلاقی خرابیوں میں مبتلا تھے پھر بھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر واقعی تم اللہ کے محبوب ہو تو وہ تمہیں تمہارےگناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے، اسکی مذمت اور تردیدکے بعد انہیں دین حق اور خاتم الانبیا ءصلی اللہ علیہ و آلہ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ۔۵۔ آٹھویں رکوع میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام نے پہلے یہود کو اللہ کے احسانات یادکر نے کا حکم دیا پھر انہیں ارض مقدس (فلسطین ) میں داخل ہونے کی ترغیب دی لیکن ان بد بختوں نے اس تر غیب کے جواب میں موسی علیہ السلام کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔۶۔ بنی اسرائیل کی سرکشی اور نافرمانی کے تذکرہ کے بعد نویں رکوع میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ ذکر کیا گیا ہے ، جس کے مطابق قابیل نے حسد کی بنا پر اپنے بھائی کو قتل کر دیا، یہی حسد یہودیوں کے اندربھی پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ کی رسالت کا انکار کیا۔۷۔ اسی قصہ کی مناسبت سے ڈاکو ؤں ، با غیوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کی سزا ذکر کی گئی ہے یعنی کس کو سولی دی جائے ، کس کو قتل کیا جائے اور کس کے ہاتھ پاؤں الٹی جانب سے کاٹ دیئے جائیں، پھر دسویں رکوع میں چوری کر نے والے اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ یہ ملک کے امن و تحفظ کے لئے خطرہ بنتے ہیں ، لہذا ان کو ایسی سزا دینا ضروری ہے جس سے دوسرے عبرت حاصل کریں ۔8 - ڈاکہ زنی، چوری اور فساد کے احکام بیان کرنے کے بعد فسادیوں کے دو بڑے گروہوں کا تذکرہ ہے یعنی منافقین اور یہود، پہلے گروہ کا ذکر اختصار کے ساتھ ہے اور دوسرے گروہ کا تفصیلی تذکرہ ہے، یہود کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کی گمراہی کا بھی بیان ہے اور بتلایا گیا ہے کہ ان کو تو رات اور انجیل دی گئی تھی لیکن انہوں نے ان کتابوں کے مطابق اپنے فیصلے نہ کئے ۔۹۔ اس کے بعد مسلمانوں کو یہود و نصاری کے ساتھ قلبی دوستی لگانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ امت اسلامیہ کےسخت ترین دشمن ہیں ۔قرآن کریم کی صداقت کا زندہ معجزہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہود و نصاری مسلمانوں کے مقابلے میں متحد ہیں ، تعجب تو اس بات پر ہے کہ عالم اسلام کے حکمران قرآن حکیم کی واضح ہدایات کے با و جو دیہو دو انصاری سے پینگیں بڑھاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر ، مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توٹ ڈالتے ہیں جسکی واضح مثال آل سعود کا یمن پر بمباری لبنان و سوریہ میں دہشت گردی ہے ۔۱۰۔ کفار کے ساتھ جب قلبی دوستی لگائی جائے گی تو ارتداد کا بھی خطرہ رہے گا اس لئے اگلی آیات میں مسلمانوں کو ارتداد سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ ارتداد سے سارے اعمال باطل اور ضائع ہو جا تے ہیں اور انسان پر ہمیشہ کے لئے دوزخ واجب ہوجاتی ہے۔۱۱۔ یہود و نصاری کی دوستی سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ سچےاہل ایمان سے دوستی کا حکم دیا گیا ہے، کفار کی دوستی کی قباحت کو واضح کرنے کے لئے مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ اسلام کے شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں اسلئے ان کے ساتھ دوستی کسی طور پر بھی جائز نہیں ۱۲- یہود و نصاری دونوں کو دین میں ناحق غلو کرنے اور خواہشات کی اتباع کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ غلو اکثر گمراہی کا سبب بنتا ہے۔۱۳۔ چھٹے پارے کے آخری رکوع میں یہود پر اللہ کی لعنت کا سبب بتلایا ہے وہ یہ کہ وہ ’’اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کر جاتے تھے اور ایک دوسرے کو برے کاموں سے منع نہیں کرتے تھے ‘‘۔یہ سبب ذ کرکر کے اصل میں امت اسلامیہ کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں وگر نه ان پر بھی ویسے ہی اللہ کی لعنت ہوسکتی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر لعنت ہوئی ۔ ۱۴۔ آخری آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن یہو دا ور مشرکین ہیں اور قرآن کے اس دعویٰ پر یہود کی پوری تاریخ گواہ ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50