حضرت امام حسینؑ کی مختصر سوانح حیات، امام حسنؑ کے دور تک

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے مختصر تعارف کے بعد آپ کا مختلف ادوار میں کردار بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں، تینوں خلفاء کے دور میں اور حضرت امیرالمومنین (ع) اور امام حسن (ع) کے دور امامت میں۔

حضرت امام حسینؑ کی مختصر سوانح حیات، امام حسنؑ کے دور تک

امام حسینؑ کی پیدائش، نام، کنیت، لقب
حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی ولادت ایک نقل کے مطابق تین شعبان چوتھی ہجری میں مدینہ میں ہوئی، لیکن بعض(غیر مشہور) کا کہنا ہے کہ آپؑ کی ولادت پانچ شعبان تیسری یا چوتھی ہجری میں ہوئی۔[1]  آپؑ کا لقب ابوعبداللہ ہے، آپ کے والد سیدالاوصیا٫  امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں اور آپؑ کی والدہ سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں۔ آپ شیعہ امامیہ کے بارہ ائمہؑ میں سے تیسرے امام ہیں اور چودہ معصومینؑ میں سے پانچویں معصوم ہیں، آپؑ اصحاب کساء اور پنجتن آل عبا میں سے پانچویں عظیم ہستی ہیں۔ بعض زیارتناموں میں آپؑ کو خامس اصحاب کساء کہا گیا ہے[2] ۔ آپؑ شہید کربلا ہیں۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی بعض روایات میں بھی امام حسین (علیہ السلام) کو لقب شہید یا سیدالشہدا٫ دیا گیا ہے۔[3] حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے ہیں اور یہ دو نام اسلام سے پہلے کسی شخص کے نہیں رکھے گئے۔[4]  پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپؑ کا نام حضرت ہارون کے دوسرے بیٹے "شبیر" کے نام پر حسین رکھا۔[5]  رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپؑ کا "حسین"  نام اللہ تعالی کے حکم سے رکھا۔[6] اس مختصر تعارف کے بعد آپؑ کے مختلف ادوار میں کردار کو بھی مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

پیغمبر اکرمؐ کی حیات کے دور میں
امام حسین (علیہ السلام) کی حیات کے تقریباً سات سال نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں گزرے ہیں۔[7] اس دور کے بارے میں تاریخی مآخذ میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کی آپؑ اور آپ کے بھائی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے محبت نقل ہوئی ہے، مثال کے طور پر آنحضرتؐ نے کئی بار امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو اپنے سینہ سے لگا کر دباتے اور ان کو سونگھتے اور چومتے تھے۔[8] نیز آنحضرتؐ نے فرمایا: "الحسن و الحسین سیّدا شباب اهل الجنة"[9]، "حسن و حسین، جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"، یہ روایت شیعہ اور اہلسنت کے کئی مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ آپؑ کے بچپن کا ایک اہم واقعہ، نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے اپنے جد، والد، والدہ اور بھائی کے ساتھ جانا ہے جس میں آپؑ اور آپؑ کے بھائی آیت مباہلہ میں " ابناءَنا"[10] کے مصداق تھے۔ نیز آیت تطہیر کے شان نزول میں بھی اہل بیت (علیہم السلام) کا ایک مصداق قرار پائے، اور سورہ دہر جو اہل بیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی، اس واقعہ میں آپؑ، اہل بیتؑ میں سے ایک تھے۔ نیز جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ ثقیف کے بڑے شخص کو خط تحریر فرمایا اور اسے اسلام کی دعوت دی تو امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو جبکہ یہ حضرات اس وقت بچے تھے، گواہ بنایا۔[11]

ابوبکر کی خلافت کے دور میں
حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے تقریباً ۲۵ سال تین خلفاء کے دور میں گزارے ہیں۔ آپؑ، پہلے خلیفہ کی خلافت کی ابتدا میں ۷ سال کے تھے، دوسرے خلیفہ کی خلافت کی ابتدا میں ۹ سال کے اور تیسرے خلیفہ کی خلافت کی ابتدا میں ۱۹ سال کے تھے۔
ابوبکر کی خلافت کا دور اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے انتہائی دردناک دور تھا۔ اہل بیت (علیہم السلام) ایک طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے سوگ میں غمزدہ تھے اور دوسری طرف سے خلافت پر اختلاف کی وجہ سے خاندان رسالت پر وقت دشوار ہوگیا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں رات کے وقت اپنے بھائی امام حسنؑ اور والدہ  جناب فاطمہ زہراؑ کے ساتھ مل کر حضرت علیؑ کے برحق منصب کو واپس لینے کے لئے مدد کرتے تھے اور ان حضراتؑ کے ساتھ مل کر اہل بدر کے ایک ایک گھر کے دروازے پر جاتے تھے۔[12] نیز آپؑ اپنے بھائی امام حسنؑ اور اپنی والدہ حضرت فاطمہؑ کے ساتھ مل کر فدک کے مطالبہ کے لئے ابوبکر کے پاس گئے اور آپؑ اور امام حسنؑ نے گواہ کے طور پر گواہی دی کہ فدک حضرت فاطمہؑ کا حق ہے۔[13]

عمر کی خلافت کے دور میں
عمر کی خلافت کے دور میں امام حسین (علیہ السلام) کے سوانح حیات زیادہ نقل نہیں ہوئے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور آپؑ کے فرزندوں نے حکومت وقت سے دوری اختیار کی۔ اہلسنت کے علما٫ نے ہی نقل کیا ہے کہ عمر کی خلافت کی شروعات میں، امام حسین (علیہ السلام) مسجد میں داخل ہوئے اور عمر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تو آپؑ منبر پر گئے اور اسے کہا: "میرے باپ کے منبر سے نیچے اتر آؤ اور اپنے باپ کے منبر پر بیٹھو" عمر جو مبہوت رہ گئے تھے، کہنے لگے: "میرے باپ کا کوئی منبر نہیں تھا"، پھر اس نے آپؑ کو اپنے پاس بیٹھا لیا[14]، بعض کا کہنا ہے کہ خلیفہ اپنے خطبہ کو ادھورا چھوڑ کر منبر سے اتر آئے۔[15]

عثمان کی خلافت کے دور میں
عثمان نے پیغمبرؐ کے صحابی جناب ابوذر  ؒکو ربذہ کی سرزمین میں جلاوطن کردیا اور سب کو، ابوذر ؒ کو روانہ کرنے سے منع کیا۔ لیکن امام حسین (علیہ السلام) اپنے باپ، بھائی امام حسنؑ، چچا عقیل، چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر اور عمار ابن یاسر کے ساتھ، عثمان کے حکم کے خلاف، ابوذر  ؒ کو روانہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔[16]

حضرت امیرالمومنینؑ کے دور حکومت میں
حضرت امام حسینؑ نے حضرت امام علیؑ کے دور حکومت کی جنگوں میں یعنی جمل، صفین اور نہروان میں شرکت کی۔[17] آپؑ نے جنگ صفین میں جہاد کی طرف رغبت دلانے کے لئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔[18] حضرت امیرالمومنینؑ نے امام حسینؑ کو امام حسنؑ کے بعد صدقات (اوقاف) کا سرپرست بنایا۔[19]

حضرت امام حسنؑ کے دور میں
جب امام حسن (علیہ السلام) مسلمانوں کی سرپرستی کے ذمہ دار قرار پائے تو امام حسین (علیہ السلام) نے آنحضرتؑ سے بیعت کی اور امام حسین (علیہ السلام) کا افواج کو نخیلہ اور مسکن کے کیمپس کے لئے بھیجنے میں بھرپور کردار تھا اور آپؑ امام حسنؑ کے ساتھ مدائن اور ساباط  میں لشکر تیار کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔[20]
نتیجہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) وہ عظیم الشان شخصیت ہیں جو اہل بیت (علیہم السلام) میں سے پانچویں ہستی ہیں، جن کے فضائل اور کمالات بچپن میں اور اس کے بعد والے ادوار میں رونما ہوتے رہے۔ آپؑ نے پہلے اور دوسرے خلیفہ کے دور میں اپنے والد کے حق خلافت اور والدہ کے حق فدک کو ثابت کرنے اور گواہی دینےکے لئے کوشش کی۔ اور نیز اپنے والد اور بھائی کا جو پہلے اور دوسرے امام تھے، مختلف مقامات پر ساتھ دیا اوراسلام کی بقاء کے لئے سرگرم عمل رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] امين، سيد محسن؛ سيره معصومان، ج 4۔
[2] ابن طاووس، إقبال الأعمال، ج2، ص572۔
[3] قریب الاسناد، ج۱، ص99 - 100۔ کامل‌ الزیارات، ج۱، ص216 - 219۔ امالی طوسی، ج1، ص49ـ 50۔ بحار الانوار، ج37، ص9495۔
[4] ابن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص357۔ دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص100۔
[5] ابن سعد، طبقات الکبری، ج6، ص356ـ357۔ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج1، ص98۔ اصول کافی، ج6، ص33۔
[6] اصول کافی، ج6، ص33 - 34۔
[7] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج1، ص177۔ ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج1، ص8۔
[8] ذخائر العقبي، ص 122۔
[9] مناقب آل أبي طالب عليهم السلام، ابن شهرآشوب، ج‏3، ص394۔ تاریخ بغداد، ج 1، ص 140؛ المستدرک على الصحیحین، ج 3، ص 167.
[10] سورہ آل عمران، آیت 61۔
[11] ابن ­سعد، ج1، ص217۔
[12] الدینوری، الامامه و السیاسه، ج1، ص29-30؛ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص75؛ مجلسی، بحارالانوار، ج22، ص328۔
[13] إبن حجر هيثمي، الصواعق المحرقة، ج 1، ص 139۔
[14] النمیری، عمر بن شبه، تاریخ المدینة المنوره، ج3، ص799؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص394؛ الذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، ج5، ص100؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج4، ص40 ؛ البغدادی، تاریخ بغداد، ج1، ص152۔
[15] نمیری، ابن‌ شبّه، تاریخ المدینة المنورة: اخبار المدینة النبویة، ج3، ص798ـ799۔
[16] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج8، ص253-254؛ کلینی، الکافی، ج8، ص207.
[17] بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص187، 213، 246، 323؛ مسعودی، مروج الذهب، ج3، ص104ـ114، 136۔
[18] نصر بن‌مزاحم، وقعة الصفین ص114ـ115.
[19] ابن‌ شبّه نمیری، کتاب تاریخ المدینة المنورة:اخبار المدینةالنبویة، ج1، ص227؛ نهج البلاغة، مکتوب ۲۴
[20] الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 165.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 53